تعصب سے بھرے امریکی سیاستدان کس طرح چین میں مذہبی آزادی پر رائے زنی کر سکتے ہیں؟ سی آر آئی کا تبصرہ

2019-07-20 17:09:59
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائک پوپیو نے اٹھار ہ تاریخ کو امریکہ میں منعقدہ نام نہاد "مذہب کی آزادی کے فروغ" کی وزارتی کانفرنس میں چین کی مذہبی پالیسی اور مذہب کی آزادی کو بد نام کرنے کی کوشش کی ہے۔

اعلی امریکی عہدے داروں کی حیثیت سے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئےدونوں نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے دن کو رات بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس طرح کے گمراہ کن بیانات انسانی حقوق اور مذہب کی آڑ میں چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں۔اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے چین امریکہ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے سنکیانگ اور تبت کی مثالیں پیش کرکے اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یوں لگتا ہے یہ دونوں شخصیات چین دشمنی میں اندھی ہوچکی ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی ہے لیکن عالمی برادری حقائق سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس حوالے سے چین کی کامیابیوں کا اعتراف بھی کرتی ہے۔ اگر سنکیانگ کی بات کی جائے تو یہاں اوسطاً 530 مسلمانوں کے لئے ایک مسجد موجود ہے۔ یہاں موجود مساجد کی کل تعداد چوبیس ہزار چار سو ہے۔ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے یہاں موجود شہریوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں لوگوں کو فنی تربیت کے ساتھ ساتھ بول چال اور دیگر مہارتیں فراہم کی جاتی ہیں۔یہ ان کامیاب کوششوں کا نتیجہ ہی ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران سنکیانگ میں ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔

اس طرح تبت میں مذہبی رسومات ادا کرنے کے سترہ سو سے زائد مقامات موجود ہیں۔ تبت کے علاقے میں چھالیس ہزار سے زائد بھکشو مرد و خواتین موجود ہیں جو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تبت کے لوگ بھر پور مذہبی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بہتر انداز میں ترقی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان ، روس اور سعودی عرب سمیت سینتیس ممالک کے مستقل سفیروں نے اس عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کے چیئرمین اور ہائی کمیشنر برائے امور انسانی حقوق کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں چین کے ویغور خود اختیار علاقے میں انسانی حقوق کے شعبے میں حاصل کردہ کامیابیوں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف حاصل کردہ نتائج کو سراہا کہا ہے۔

امریکہ مذہبی آزادی اور حقوق انسانی کی پامالی کے حوالے سے خود ایک بدنام ملک ہے۔ لہذا اسے دوسرے ممالک کی طرف انگلی اٹھانے سے قبل ہزار بار سوچنا چاہیے۔ اس وقت امریکہ میں موجود کل مساجد صرف سنکیانگ میں موجود مساجد کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ موجودہ امریکی انتظامیہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکہ میں نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ گلیپ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق امریکہ میں موجود 42 فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ انہیں نسلی بنیادوں پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ سروے میں شریک 75 فیصد مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکی معاشرے میں مسسلمان اقلیت کو جائزہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔

امریکہ چین میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی آڑ میں اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ یہ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب چین اور امریکہ کے سربراہان نے اوساکا میں ملاقات کی تھی اور تمام حل طلب معاملات کو مذاکرات اور برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔علاوہ ازیں حال ہی میں امریکی دانشوروں اور کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے مشترکہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی کانگریس کو خط لکھا ،جس میں انہوں نے چین کے خلاف امریکی پالیسی پر تنقید کی ۔خط میں کہا گیا کہ امریکہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی مقابلے کی صلاحیت کو بلند کرنا چاہیے اور عالمی تعاون کو فروغ دینا چاہیئے۔ اس خط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حال ہی میں چین کے خلاف امریکی حکومت کے اقدامات پر امریکہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حلقوں کا اتفاق رائے نہیں ہے۔

مائیک پومپیو اور مائیک پینس جیسی شخصیات نے اگر اپنی موجودہ روش برقرار رکھی تو وہ بہت جلد نہ صرف خود تنہاہ ہو جائیں گے بلکہ امریکہ کو بھی تنہائی کا شکار کردیں گے۔


شیئر

Related stories