امریکہ کو وبا سے متعلق تین سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے ۔ سی آرآئی کا تبصرہ

2020-03-22 20:52:30
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

حال ہی میں امریکی سیاستدانوں نے کووڈ -19 کو چینی وائرس کہا ہے ،جس پر عالمی برداری نے سخت تنقید کی ہے ۔ کئی امریکی اور یورپی میڈیا نے امریکہ پر تنقید کی ہے کہ امریکہ نسل پرستی کےجذبات اورغیرملکی افراد کیخلاف نفرت پھیلا رہا ہے اور اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کررہاہے ۔ وائرس کے ماخذ کی تلاش ایک سائنسی معاملہ ہے، جس کیلئے ثبوتوں کی ضرورت ہے ۔ حال ہی میں اٹلی کے نامور طبی ماہر جوسپے رموزی نےامریکی ذرائع ابلاغ کودیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اٹلی میں گزشتہ سال نومبر یا دسمبر میں ہی کووڈ-۱۹ کے علامات سے بہت ملتے جلتے نا معلوم نمونیا کیسز سامنے آ ئے تھےجس سے انہوں نے اس شبہ کا ظہار کیا ہےکہ چین میں وبا پھوٹنے سے پہلے وائرس اٹلی میں پھیل گیا تھا ۔اس سےایک بار پھر چینی طبی ماہر جونگ نان شانکے اس نظریے کو تقویت ملی ہے کہ وائرس کا ماخذچینمیںنہ ہونے کا امکان ہے ۔ برطانوی صحافی امانڈا واکر نے نشاندہی کی ہے کہ اگر امریکہ میں لاکھوں افراد جان بحق ہو جائیں ،تو اس کی ذمہ داری امریکی صدر پرہوگی امریکہ کووڈ -19 کو چینی وائرس کہہ کرتنقید سے فرارنہیں ہوسکتا۔
حال ہی میں امریکہ میں وبا کے کنٹرول کےحوالے سےمزید شکوک شبہات نظر آئے ہیں ۔ آسٹریلیا کےوزیراعظم سکاٹ موریسن نے بیس تاریخ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ آسٹریلیا میں کووڈ-19 سے متاثرہ تصدیق شدہ کیسز میںبیشتر کیسزامریکہ سے واپس آنے والوں اوران کے قریبی افراد پر مشتمل ہیں ۔ وبا سے متعلق امریکی طرز عمل پربیرونی ممالک کی جانب سے سوالات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
وبا سے متعلق تین سوالات کےامریکی حکومت کو صاف صاف جوابات دینے کی ضرورت ہے ۔ پہلا، امریکہ کےبیماریوں کے کنٹرول سینٹر کے تازہ ترین اندازے کے مطابق ، ستمبر ۲۰۱۹ میں امریکہ میں فلو سیزن کے دوران تین کروڑ امریکی فلو سے متاثر ہوئے ،ان میں بیس ہزارہلاک ہوئے ۔ حال ہی میں امریکہ کے بیماریوں کے کنٹرول سینٹر کے ڈائریکٹر نے تصدیق کی ہے کہ ان میں کچھ افراد کووڈ-19 سے متاثر ہوئے ۔ تو ان میں کتنے لوگ موجودہ وبا سے متاثر ہوئے ہیں ۔کیا امریکہ کووڈ ۔۱۹ کوفلوقرار دے کرحقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے ؟اگر نہیں تو امریکہ فوری طور پر سرکاری ڈیٹا جاری کرے۔ عالمی صحت عامہکے متعلقہ افسر ان اس حوالے سے جانچ پڑتال کریں بلکہ عالمی ادارہ صحت کو اسحوالے سےتحقیق کی دعوت دی جائے۔ دوسرا ، جولائی ۲۰۱۹ میں امریکہ نے میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک بائیو کیمیکل ہتھیاروں کے اڈے کو اچانک بند کر دیا ۔ یہ امریکی فوج کا سب سے بڑا کیمیکل ہتھیاروں کے مطالعہ کامرکز ہے ۔ نیو یارک ٹائمز نے کہا کہ اس کو بند کرنے کا سبب لیبارٹری کے گندے پانیکو صاف کرنے کے نظام کی خرابی تھی۔لیکن اس اڈے کو بند کرنے کے بعد امریکہ میں مسلسل نمونیا کیسز رونما ہوئے ۔ متعلقہ اداروں نے کہا کہ نمونیا کا سبب الیکٹرانک سگریٹ ہے ۔ لیکن سائنسدانوں نے کہا کہ الیکٹرانک سگریٹ متعلقہ بیماری کا سبب نہیں ۔اڈے بند کرنے کے وقت ہیامریکہ میں ایچ ون این ون فلو کی بیماری پھوٹ پڑی ، اس کے بعد اکتوبر میں امریکہ کے کئی اداروں نے ایونٹ ۲۰۱ نامی عالمی وبا کی مشق کی ۔دسمبر ۲۰۱۹ میں چین کے شہر وو ہان میں کووڈ -19 سے متاثرہ پہلے مریض کی تشخیصہوئی ،۲۰۲۰ کے فروری میں وبا دنیا میں پھیلنے لگی ۔کیا ان سب واقعات کےدرمیان کوئی ربط ہے ؟
حال ہی میںبعضلوگوں نے امریکی حکومت سے میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک بائیو کیمیکل ہتھیاروں کے اڈے کو بند کرنے کے حقیقی اسباب منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیاہے۔
تیسرا ، حال ہی، فروری کے وسط میں امریکی حکومت نے کہا کہ وبائی حالت ہلکی ہے جبکہ اس دوران امریکہ کے تین سینیٹر ز اپنے حصص کی فروخت میں مصروف رہے۔ اس عمل پر امریکی عوام اور میڈیا کو شدید غصہ ہے اور اس خدشے کا اظہارکیا جارہاہے کہ کہیں ان سینیٹرز نےجان بوجھ کر وبا سے متعلق حقائق عوام سے چھپا کر انسائڈ ٹریڈنگ تو نہیں کی ؟اس سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ بعض امریکی سیاستدانوں کے نزدیک سرمایہ عوام کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ یاد رہے کہ بیس جنوری کو امریکہ میں کووڈ-۱۹ کا پہلا کیس سامنے آیا تھا لیکن قومی ایمرجنسی کا اعلان تیرہ مارچ کو کیا گیا ۔امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہےکہ جنوری سے ہی انٹیلی جنس ادارے کووڈ-۱۹ کی سنگینی کے بارے میں متنبہ کررہےتھے تاہم امریکی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اس حوالے سے کوئی جوابی لائحہ عملاختیار نہیں کیا۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے کہ امریکہ نے تقریباً دو مہینے کیوں ضائع کیے۔ اس بارے میں امریکہ کو وضاحتدینے کی ضرورت ہے ۔
مقامی وقت کے مطابق اکیس تاریخ کی شام کو گیارہ بجے تک امریکہ میں وبا سے متاثرہ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ۲۶۷۴۷ ہوگئیہے ،ان میں ۳۴۰ ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں بھی امریکہ کے کچھ سیاستدان اپنی ذمہ داری اور غلطی کو قبول نہیں کررہے ۔ اگر امریکی سیاستدانوںنے اپنی غلطیوں کوجلد تسلیم نہ کیا تو ان کو اس کی مزید بھاری قیمتچکانی پڑ سکتیہے۔

شیئر

Related stories