ایک آفت ، مختلف ردعمل اور مختلف نتائج
کووڈ- ۱۹ اپنی طرز کی وہ پہلی آفت ہے جس کا تجربہ انسانیت نے اس سے قبل کبھی نہیں کیا تھا۔ دنیا بھر میں اس وبا کے خلاف اختیار کئے جانے والے ردعمل نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔اگر ہم اس حوالے سے چین اور امریکہ کا موازنہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ہی وبا کے خلاف دومختلف ردعمل اختیار کئے گئے اور ان کے نتائج بھی مختلف رہے۔
پہلا ،جنوری میں وبا پھوٹنے کے بعد ، چین اور امریکہ نے اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف پیغامات بھیجے ۔چین نے اس وبا کی دریافت کے فوری بعد عالمی ادارہ صحت اور دنیا کے ساتھ متعلقہ معلومات کا تفصیلی تبادلہ کیا اور وبائی صورت حال کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ووہان سمیت پورے ملک میں لاک ڈاؤن اور انتہائی بلند درجے کے انسدادی اقدامات اختیار کئے ۔ادھر امریکی حکومت نے ان تمام معلومات کو نظر انداز کرتے ہوئے دو ماہ کا قیمتی وقت ضائع کر دیا اور وبا پر قابو پانے کے سنہرے موقع سے محروم ہو گیا۔ یہ اسی ردعمل کا نتیجہ ہے کہ اس وقت امریکہ دنیا میں وبا سےسب سے زیادہ متاثرہ ملک بن چکا ہے۔
دوسرا، وبا کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں چینی حکومت نے پورے چین کے تمام متعلقہ وسائل کو یکجا کرکے ایک متحدہ انسدادی قوت تشکیل دی ، اور تمام لوگ اور جماعتیں اس جدوجہد میں شامل ہوئے۔ دوسری طرف اگرا مریکہ کو دیکھیں تو وہاں ہر ریاست کی اپنی پالیسیاں ہیں۔اس سارے عرصے میں فیڈرل حکومت اور مقامی حکومتیں ایک دوسرے کی تنقید کرتی نظر آئیں۔ دوسرے ممالک سے طبی انسدادی سازوسامان کو ہتھیانے اور مانگنے کے علاوہ ، امریکی فیڈرل حکومت نے بار بار اپنی مختلف ریاستوں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا اور مختلف ریاستوں کے ہسپتالوں میں موجود طبی ساز و سامان کو بغیر کسی معقول جواز کے اپنے قبضے میں لے لیا۔
تیسرا، چین نے اپنی وبائی صورتحال پر ہمیشہ شفاف رویہ اختیار کئے رکھا جبکہ امریکہ اپنی وبائی صورتحال پر پردے ڈالتا رہا ہے۔ انسداد وبا کے عالمی تعاون میں عالمی ادارہ صحت کے قائدانہ کردار کی بھر پور حمایت کرنے، وقت پر معلومات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ،چین مثبت طور پر دنیا کےساتھ تکنیکی تعاون کرتا چلا آ رہا ہے ۔تاہم امریکی حکومت حقائق کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے۔امریکی حکومت کے رہنما گروپ برائے انسداد وبا کے رکن ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ ہدایات ملی تھیں کہ وہ بغیر کسی اجازت کے وبا کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ کریں۔
چوتھا ، چین میں ، انسداد وبا کے سلسلے میں ناکامی سے دوچار ہونے والے عہدیداروں کو جوابدہ ٹھہرایا گیا حتیٰ کہ انہیں اپنے عہدوں سے بھی سبکدوش ہونا پڑا جبکہ امریکہ میں ، سچائی کے متلاشی عہدیداروں کو ملازمت سے برخاست کردیا جاتا ہے ۔
چین اور امریکہ کی جانب سے اختیار کئے جانے والے مختلف وبائی ردعمل کے مختلف نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اب تک ، چین میں کووڈ-۱۹کی وبا کو بنیادی طور پر کنٹرول کر لیا گیا ہے ۔ ادھر ، امریکہ کے ارباب اختیار کے متکبرانہ ردعمل کی وجہ سے وبا پر قابو پانے کا سنہری اور قیمی دو ر ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا میں وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ امریکہ میں ایک لاکھ سینتیس ہزار سے زائد لوگ اس وبا کے سامنے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور متاثرہ کیسز کی تعداد چونتیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
امریکی قوم کو اس مشکل صورت حال سے دوچار کرنے والے مغرور، متکبر اور نااہل امریکی سیاستدان صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرنے کی بجائے اب بھی افواہ سازی اور الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔
یہ ناعاقبت اندیش سیاستدان اب بھی اپنے لوگوں کی حفاظت کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے جلد از جلد معیشت کی دو بارہ بحالی کی باتیں کر رہے ہیں ،دوسری طرف جب دنیا بھر کے ممالک اپنے شکوک و شبہات کو امریکہ پر مرکوز کرتے ہیں تو امریکی حکومت اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے چین پر الزامات لگانے کی کوششیں شروع کردیتی ہے۔ان تمام حقائق کی روشنی میں بغیر کسی تبصرے کے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکہ میں وبا قدرتی نہیں بلکہ انسان کی اپنی پیدا کردہ آفت ہے۔
چین نے انسداد وبا کے سلسلے میں دنیا کے سامنے نصابی نوعیت کی عمدہ کارکردگی پیش کرکے بنی نوع انسان سے محبت اور وبا کے خلاف جرات و ہمت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت جنوبی چین میں شدید سیلابی صورت حال ہے۔ووہان سمیت جنوبی علاقوں کے عوام وبا پر کنٹرول پانےکے بعد اب ایک بار پھر سیلاب کے خلاف متحدہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ یقین ہے کہ چینی عوام ایک بار پھر متحد ہو کر قدرتی آفات پر قابو پا لیں گے اور نصابی مثال قائم کریں گے ۔ چینی عوام کبھی ہمت نہیں ہاریں گے اور ہر مشکل کو اپنے عزم،ہمت اور اتحاد سے شکست دیں گے۔