وائرس کا ماخذ نیکی نیتی سے تلاش کیا جا سکتا ہے نہ کہ الزام تراشی سے
حالیہ دنوں عالمی ادارہ صحت کے دو ماہرین چین پہنچے ہیں اور وہ نوول کورونا وائرس کے ماخذ کا پتہ چلانے کے لئے سائنسی تعاون پر چین کے ساتھ ابتدائی مشاورت کریں گے۔ اس سے قبل ، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے نشاندہی کی کہ وباء پھوٹنے کے بعد سے ڈبلیو ایچ او اور چین نے باہمی رابطوں اور تعاون کو برقرار رکھا ہے۔ دونوں اطراف کے ماہرین ڈبلیو ایچ او کی زیرقیادت بین الاقوامی ماہرین کے گروپ کے کام کا طریقہ کار طے کریں گے اور مشترکہ طور پر گروپ کا دائرہ اختیار مرتب کریں گے۔چاؤ لی جیان نے اس بات پر زور دیا کہ نوول کورونا وائرس کی وبا کے ماخذکا پتہ لگانا ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔یہ ایک سائنسی مسئلہ ہے ، اور سائنس دانوں کو اس حوالے سے عالمی سطح پر بین الاقوامی سائنسی تحقیق اور تعاون کرنا چاہئے۔
طویل انسانی تاریخ میں ، وائرس کا سراغ لگانا ہمیشہ سے ہی ایک مشکل سائنسی مسئلہ رہا ہے۔ ایڈز اورسارس جیسی دیگر بیماریوں کا باعث بننے والے وائرس کا ماخذ جاننے کا کام گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے تاہم ابھی تک کوئی بھی حتمی جواب سامنے نہیں آسکا ہے۔ نامعلوم پیتھوجین وائرس کا سراغ لگانے کے لئے ، پہلا قدم اس پیتھوجین کی تلاش کرنا ہے جو بیماری کا سبب بنتا ہے؛ دوسرا مرحلہ یہ طے کرنا ہے کہ پہلے کون سا جانور اس سے متاثر ہوا تھا ، یعنی وائرس کا قدرتی میزبان کون ہے۔اس کے بعد جانوروں سے انسان تک وائرس کی منتقلی کا طریقہ کار معلوم کرنا ہے۔ اس وقت ، نوول کورونا وائرس کے بارے میں معلومات بہت ہی محدود ہیں ، اور وائرس کی منتقلی کا طریقہ کار بھی تاحال نا معلوم رہا ہے۔ لیکن سائنسدان مشکلات کے باوجود وائرس کی تلاش کا کام ترک نہیں کریں گے۔ یہ محض تجسس کو پورا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ متعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان کے علاج معالجے کے لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ، اور یہ پوری انسانیت کی صحت اور زندگی کی بہتر حفاظت کے لئے ہے۔
چین میں کووڈ-۱۹ کے پہلے مریض کی تصدیق 1 دسمبر ، 2019 کو ہوئی۔ لیکن یہ بات حتمی نہیں ہےکہ یہی کیس وائرس کا ابتدائی ماخذ بھی ہو ۔ مختلف ممالک میں وائرس کا سراغ لگانے کا کام جاری ہے ، تاہم بہت سارے ممالک میں "پہلے مریض" کا سراغ لگانے کی ٹائم لائن آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی ہے۔ بہت سے ممالک کے سائنس دانوں اور طبی ماہرین کے تحقیقی نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ممالک میں ابتدائی کیس کا چین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانا ایک سنجیدہ اور پیچیدہ سائنسی مسئلہ ہے ۔تاہم ، کچھ مغربی سیاستدان اس مسئلے پر سیاست کرنے اور چین کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔درحقیقت ان کی یہ کاروائی سیاسی مقاصد کے لئے ہے -وہ انسداد وبا کے سلسلے میں اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے چین اور عالمی ادارہ صحت پر الزام تراشی کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ یہ "سیاسی وائرس" نوول کورونا وائرس کے مقابلے زیادہ خطرناک ہے اور یہ کہ اس وائرس سے لڑنے کے لئے انسانی تعاون کے راستے کی رکاوٹ بن چکا ہے۔
کووڈ-۱۹انسانیت کا مشترکہ دشمن ہے۔ وبا کے خلاف عالمی جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں کامیابی خوف پھیلانے، افواہوں کا بازار گرم کرنے اور بد نیتی پر مبنی احتساب کے نعرے لگانے سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کامیابی کی کلید حقیقت اور سچائی کے ساتھ آگے بڑھنے میں ہی پنہاں ہے۔
وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے کے معاملے پر ، تمام ممالک کو سائنسی رویئے پر قائم رہنا چاہئے ،اس کام کے مقصد کو مزید خالص بنانا چاہئے ، اور انسانیت کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جدوجہد کرنا چاہیے۔