ہواوے پر عائد برطانوی پابندیاں ،اقتصادی اور تجارتی امور پر سیاست کا ایک اور خطرناک اقدام کیا تجارتی امور پر سیاست برطانیہ کے شایان شان ہے؟

2020-07-15 14:44:55
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

ہواوے پر عائد برطانوی پابندیاں ،اقتصادی اور تجارتی امور پر سیاست کا ایک اور خطرناک اقدام کیا تجارتی امور پر سیاست برطانیہ کے شایان شان ہے؟

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے 14 تاریخ کو اعلان کیا کہ برطانیہ رواں سال کے آخر تک چینی مواصلاتی کمپنی ہواوے سے فائیوجی مصنوعات کی خریداری بند کردے گا ، اور 2027 تک ہواوے کی تمام فائیو جی تنصیبات کا استعمال ترک کردے گا۔ برطانوی حکومت کے اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ میں فائیوجی نیٹ ورک کی تعمیر میں ہواوے کی شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے ہواوے برطانیہ کے ترجمان ایڈورڈ بریوسٹر نے کہا کہ یہ فیصلہ مایوس کن ہے۔ اس فیصلے سے ہوواے کی برطانیہ میں ترقی کے مستقبل کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اس اقدام کی وجہ امریکی تجارتی پالیسی ہے ، یہ نیٹ ورک سکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔

یہ اقدام نہ صرف رواں سال جنوری میں ہواوے کو فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے برطانوی حکومت کے فیصلے کے برعکس ہے ، بلکہ اس سے قبل برطانوی نیشنل سائبر سیکیورٹی سینٹر کے اس عزم کے خلاف بھی ہے کہ ہواوے کی فائیو جی تنصیبات سے کسی بھی قسم کا خطرہ قابل کنٹرول ہے ۔ برطانوی مواصلاتی انٹلیجنس ایجنسی نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چینی حکومت ہواوے کے ذریعہ سائبر جاسوسی انجام دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت کا یہ اقدام معاشی اور تجارتی امور پر سیاست کرنے کی ایک اور مثال ہے۔

امریکہ سکیورٹی خدشات کو بہانہ بنا کر برطانیہ اور دیگر ممالک کو ہواوے پر پابندیاں عائد کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔امریکہ کی جانب پیش کردہ یہ نظریہ سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔فائیو جی سیکیورٹی ڈھانچہ ایک مکمل نظام ہے جس کی متعدد تہیں اور ڈومینز ہیں۔مختلف تہوں اور مختلف ڈومین کے مختلف ذمہ دار ہیں۔ ایپلی کیشن ڈویلپرز / سروس آپریٹرز ، ٹرمینل مینوفیکچررز ، تنصیبات تیار کرنے والے ، اور نیٹ ورک آپریٹرز سبھی اپنی اپنی ڈومین سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں۔ لہذا ، فائیو جی کا سیکیورٹی مسئلہ محض ہواوے کمپنی کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ پوری صنعت کو درپیش ایک مشترکہ چیلنج ہے۔

ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت کا مذکورہ فیصلہ امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے ۔اس کے علاوہ ، ہانگ کانگ کے معاملے پر چین کے ساتھ تنازعہ بھی برطانوی حکومت کے فیصلے کے پیچھے کارفرما ایک اہم وجہ ہے۔ برطانیہ "فائیو آئز الائنس" کا ایک اہم رکن ہے ، جو امریکہ کا سب سے وفادار "اسٹریٹجک اتحادی" ہے۔

لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ معاشی اور تجارتی امورکو سیاسی رنگ دینا امریکہ کے موجودہ فیصلہ سازوں کی نا اہلی اور احمقانہ نظریے کا ایک اور ثبوت ہے جس کی برطانیہ پیروی کرتا چلا آ رہا ہے۔ معاشی اور تجارتی مسئلے کو حل کرنے کے لئے پیشہ ورانہ علم اور مہارت کی ضرورت ہے، تکبر اور جنون کی نہیں۔ منڈی کی معیشت کی ترقی کے اپنے قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے 14 تاریخ کو باقاعدہ پریس کانفرنس میں نشاندہی کی کہ آیا برطانیہ میں چینی کمپنیوں کے لئے کھلا ، منصفانہ اور غیر امتیازی کاروباری ماحول مہیا کیا جا سکتا ہے، یہ بریگزٹ کے بعد برطانوی مارکیٹ کی ترقی کی سمت کا عکاس ہے ، اور یہ برطانیہ میں چینی سرمایہ کاری کی حفاظت کا ایک بیرومیٹر بھی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ ، جو عملیت پسندی کے لئے جانا جاتا ہے ، ہواوے کو چین کے خلاف سودے بازی کے طور پر استعمال کرسکتا ہے ، اور اب بھی پالیسی میں ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم ، دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی اور ترقی کا انحصار کبھی بھی چھوٹے حساب کتاب پر نہیں ، بلکہ بالغ النظری اور دور اندیشی پر ہے ۔ جیسا کہ برطانیہ میں چینی سفیر لیو شاؤ منگ نے کہا ہے کہ دوسرے ممالک کی پیروی کرنے سے ، " گریٹ بریٹن" کیسے گریٹ ہو سکتا ہے۔اس سوال پر برطانیہ کو گہرائی سے سوچنا چاہئے۔


شیئر

Related stories