جنوبی بحیرہ چین کے امور پر امریکی سیاستدانوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ سی آر آئی کا تبصرہ

2020-07-19 17:02:39
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

حالیہ دنوں میں ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بار بار جنوبی بحیرہ چین میں کشیدگی کو ہوا دی ، انہوں نے جنوبی بحیرہ چین پر چین کے اقتدار اعلیٰ اور سمندری حدود کے حقوق سے متصادم بیانات دئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک اور چین کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ امریکی فوجی طیاروں اور جنگی جہازوں نے بھی وقتاً فوقتاً جنوبی بحیرہ چین میں اشتعال انگیزی کو ہوا دی۔ امریکہ نے اپنے متعلقہ اقدامات سے جنوبی بحیرہ چین کے امور میں مداخلت نہ کرنے کے اپنے عہد کو توڑ دیا اور یوں امریکی حکومت نے اپنی منطقی اور اخلاقی ساکھ کھو دی ہے۔

اس خطے کا ملک نہ ہونے کی حیثیت سے ، امریکہ جنوبی بحیرہ چین کے تنازعہ کا فریق نہیں ہے اور اسے جنوبی بحیرہ چین کے معاملے میں کوئی رائے پیش کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم ، کچھ امریکی سیاستدانوں نے ، اپنے مفادات کی خاطر ، جنوبی بحیرہ چین میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے ان اقدامات اور اشتعال انگیزیوں کی وجہ سےامریکہ علاقائی امن و سلامتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔

چین اور آسیان ممالک "جنوبی بحیرہ چین میں لائحہ عمل "کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔مائیک پومپیو اور دیگر امریکی سیاستدانوں کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین میں تنازعات کو اکسانے کا اصل مقصد چین اور آسیان ممالک کے مابین مستحکم تعلقات کو نقصان پہنچانا اور چین کی ترقی کی راہ کو روکنا ہے۔

جنوبی بحیرہ چین میں تنازعات کو ہوا دینے کے پیچھے کار فرما امریکی سوچ کی ایک اور بڑی وجہ امریکہ کے داخلی انتشار اور کووڈ-19 پر قابو پانے میں ناکامی سے توجہ ہٹانا بھی ہے۔دوسری طرف سے ،جنوبی بحیرہ چین کے علاقے میں تنازعات کو ہوا دے کر امریکہ خطے میں اپنے اسلحے کی فروخت کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔

چین اور آسیان ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ، جنوبی بحیرہ چین کی صورتحال استحکام اور بہتری کے راستے پر گامزن ہے۔ چین اور آسیان ممالک کے مابین "جنوبی بحیرہ چین میں لائحہ عمل" کے بارے میں مشاورت اب متن پر نظرثانی کے دوسرے دور میں داخل ہوگئی ہے ، جو علاقائی امن و استحکام اور جہازرانی کی آزادی کے لئے تمام متعلقہ فریقوں کے مشترکہ عزم کا ثبوت ہے۔ چین اور آسیان ممالک اپنے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور دانشمندی رکھتے ہیں ، اور انہیں کسی بھی بیرونی مداخلت کی ضرورت یا اجازت درکارنہیں ہے۔ ہم امریکی سیاست دانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ گھریلو وبا کی روک تھام پر توجہ دیں ، اور دنیا میں بدامنی پھیلانے کی کاروائیوں کو بند کریں۔


شیئر

Related stories