اب مجھے زکربرگ پسند نہیں رہا، شعبہ اردو کا تبصرہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 31 جولائی کو بیان دیا کہ وہ اس خدشے کی بنیاد پر چینی کمپنی ٹک ٹاک پر امریکہ میں کاروبار کرنے پر پابندی عائد کرنے جارہا ہے کہ ٹِک ٹاک کا سافٹ ویئر امریکی شہریوں سے معلومات چوری کرتاہے اور امریکی قومی سلامتی کے مفادات کو نقصان پہنچاتاہے۔
یکم اگست کو امریکہ میں ویڈیو ایپ ٹِک ٹاک کی جنرل منیجر ، وینیسا پیپاس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں
کہا کہ اس وقت امریکہ میں ٹِک ٹاک کے 1،500 مقامی ملازمین ہیں اور آنے والے اگلے تین سالوں میں ان کی تعداد 10،000 تک پہنچ جائے گی ۔ہم امریکہ میں اپنا کاروبار نہیں چھوڑیں گے۔
سی این این نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ میں ٹِک ٹاک کے 100 ملین صارفین ہیں ۔ بہت سے لوگ اسے کاروبار شروع کرنے اور پیسے کمانے کے لئے ایک طریقہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
وی چیٹ سے لے کر ٹک ٹاک تک ، امریکی حکومت بار بار چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مشہور مصنوعات پر پابندی لگانے کی دھمکی دے چکی ہے ، کیا واقعی امریکہ یہ سب کچھ قومی سلامتی کی خاطر کررہا ہے؟ سب جانتے ہیں ایسا نہیں ہے ۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ بار ہا چینی کمپنیوں کے خلاف امریکی حکومت کے بےبنیاد الزامات کی حمایت کررہا ہے ، اور دعوی کررہا ہے کہ چینی کمپنیاں امریکی شہریوں کے انفارمیشن سیکیورٹی اور قومی مفادات کو خطرہ سے دو چار کررہی ہیں۔
کچھ دن قبل امریکی کانگریس کی سماعت کے دوران فیس بک ، گوگل ، ایمیزون اور ایپل کے سی ای اوز سے امریکی سینٹروں نے پوچھا کہ کیا واقعی چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے امریکی ٹیکنالوجی چوری کی ہے ؟ باقی تینوں کمپنیوں کے اعلی اہلکاروں نے واضح طور پر کہا کہ اس بارے میں اطلاعات تو متعدد بار سامنے آئیں تاہم ان کے ہاں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف زکربرگ نے چین پر الزام لگایا اور کہا کہ اس بارے میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
لوگوں کو یاد ہے کہ کچھ سال پہلے، زکربرگ نے چینی مارکیٹ میں رسائی حاصل کرنے کے لئے کئی بار چین کا دورہ کیا۔ انہوں نے ظاہر کیا کہ وہ اپنی چینی نژاد بیوی سے متاثر ہو کر چینی ثقافت سے پیار کرتے ہیں،چینی زبان سیکھتے رہے ۔انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پرچینی پکوان جاو زی بنانے ، بیجنگ میں صبح سویرے دوڑنے کے ویڈیوز شایع کئے جس سے چینیوں میں ان کی مقبولیت بہت بڑھ گئی۔ اس بار چینی کمپنیوں کے بارے میں ان کے بیانات اور کاروائیوں نے بہت سارے چینیوں کو حیران کردیا ہے۔ ایک پیارے چینی داماد نے اچانک اپنا رخ موڑ کر چین پر الزام کیوں کیا؟ کیا وہ اس سے پہلے صرف تماشاکررہا تھا؟
بلوم برگ نیوز ایجنسی نے ٹک ٹاک کے سی ای او کیون میئر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ فیس بک فی الحال کچھ ممالک اور خطوں میں ریلز کے نام سے ایک نئی پروڈکٹ لانچ کر رہا ہے۔ میئر نے براہ راست فیس بک کے اس پروڈکٹ اور ایک اور مختصر ویڈیو ایپلی کیشن ، لسو کو ٹِک ٹاک کی کاپی قراردیا ۔ اور کہا کہ فیس بک نے بار بار کاپی ایپلی کیشنز کو لانچ کیا ہے ، اور اب اس نے بدنیتی پر مبنی الزامات کو حب الوطنی کے بھیس میں پیش کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چینی مصنوعات امریکہ سے ختم ہوجائیں۔ چونکہ فیس بک کو موثر مواد تخلیق کاروں کی ضرورت ہے اسلئے اسے امید ہے کہ ٹک ٹاک کے باصلاحیت تخلیق کار ٹک ٹوک سے دستبردار ہو کر ریلز کا رخ کریں گے۔
اب تک لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ فیس بک کو متعدد مرتبہ چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے شکست دی ہے ، اور اب اس کے سوشل میڈیا کے بادشاہ کی حیثیت کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے ، لہذا زکربرگ نے چینی کمپنیوں کا گلا گھونٹنے میں امریکی حکومت کی مدد کی۔ اس کے علاوہ ، کچھ میڈیا نے نشاندہی کی کہ سلیکن ویلی کی بڑی کمپنیوں کے اعلی اہلکار ہمیشہ ہی ڈیموکریٹس پارٹی کے قریب رہتے ہیں ، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے کیا سودہ بازی ہوئی ہے ۔
زکربرگ ہمیشہ نوجوانوں کی ایک آئیڈیل کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش ہوتا رہا ، اور لوگوں کو مختلف مواقع پر معاشرتی مسائل اور عالمی بحرانوں پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتا رہا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں امریکی صدر کے انتخاب لڑنے کے لئے زکربرگ کے پاس کافی اہلیت موجود ہے ۔ تاہم ، پچھلے دنوں ان کے قول و فعل نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ ابراہم لنکن جیسے عظیم امریکی بابا کے مقابلے میں ،زکربرگ صرف ایک بزنس مین ہے ، اور ٹرمپ کی طرح ایک تاجر ہے ، جس کے خون میں منافع ہی منافع بہتا ہے۔ اگر وہ مستقبل میں صدر بن بھی جاتا ہے ، تو ٹرمپ کی طرح ہی رہیں گے ، جو اوول آفس میں بیٹھے ہوئے ایک بزنس مین ہیں۔