امریکی سیاستدانوں کی چین سے الگ ہونے کی رائے امریکی کاروباری اداروں کے لئے زہر کی مانند ہے،سی آر آئی کا تبصرہ

2020-08-29 19:15:22
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

حالیہ دن ، امریکی رہنما نے ایک انٹرویو میں ایک بار پھر چین سے الگ ہونے کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ امریکہ کے لیے "چین کے ساتھ کاروباری مراسم لازمی نہیں ہیں۔" حالیہ عرصے میں ، امریکی سیاستدان تواتر سے ایسے بیانات دیتے آئے ہیں ، لیکن درحقیقت یہ رواں برس کے صدارتی انتخاب کے لیےمحض ایک دبنگ سیاسی شو کے سوا کچھ نہیں ہے۔

امریکی سیاستدانوں کی جانب سے چین کے ساتھ کاروباری مراسم نہ رکھنے کے لیے امریکی کمپنیوں پر زور اُن کے لیے ایک "زہر یلی گولی" کی مانند ہے ، جس کی امریکی کمپنیوں نے بھی شدید مخالفت کی ہے۔ امریکی حکومت نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ 20 ستمبر کے بعد امریکی افراد اور کمپنیاں چین کی آئی ٹی کمپنی ٹینسنٹ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم وی چیٹ سے متعلق کسی بھی لین دین کی مجاز نہیں ہوں گی۔اس کے نتیجے میں ایپل ، فورڈ ، گولڈمین سیکس ، وال مارٹ ، پی اینڈ جی سمیت دیگر امریکی کمپنیوں کی جانب سے مخالفت کی شدید لہر سامنے آئی ہے۔ ایک درجن سے زائد امریکی بین الاقوامی کمپنیوں نے وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کے ساتھ ایک کانفرنس کال میں زور دیا کہ وی چیٹ کے استعمال پر پابندی لگانے سے چین کی مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کی مسابقتی قوت کمزور ہوسکتی ہے۔

دنیا کی دو بڑی معیشتوں کی حیثیت سے ، چین اور امریکہ کی معیشتوں کا ایک دوسرے سے گہرا ربط ہے۔امریکہ میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ہنری فریل کا ایک بہت ہی واضح استعارہ ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ چین اور امریکہ کی معیشتیں "جڑواں" کی مانند ہیں۔ جنہیں زبردستی جدا کرنے سے نہ صرف دونوں زخمی ہوں گے بلکہ اس کے اثرات دیگر دنیا تک پھیل جائیں گے۔

امریکی سیاستدان جو اس وقت "سیاسی شوز" میں مصروف ہیں انہیں اپنے کاروباری حلقوں کی معقول آوازوں کو غور سے سننا چاہیے ، نام نہاد "چین سے الگ ہونے" کے شور کو بند کرنا چاہیے، امریکی کمپنیوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا ترک کرنا چاہیے ، اور اس وبا سے متاثرہ امریکی معیشت کی جلد بحالی کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔


شیئر

Related stories