امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز نہ ختم ہونے والا "بھیانک خواب " بن گیا ہے ، سی آر آئی کا تبصرہ

2020-09-01 12:05:27
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

امریکہ میں حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر سے امریکی نسلی امتیازی سلوک کے خلاف جو احتجاج شروع ہوئے ہیں اور ان کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اٹھائیس تاریخ کو واشنگٹن میں ، یکساں مساوت حقوق کے بارے میں مارٹن لوتھر کنگ کی مشہور تقریر " میرا ایک خواب ہے" کی 57 ویں برسی کی یاد میں منعقدہ جلسے میں دس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی ۔ مارٹن لوتھر کنگ کے بیٹے نے اعتراف کیا کہ امریکہ ان کے والد کی توقع کے مطابق نہیں بن سکا، بلکہ یہ ایک نہ ختم ہونے والا "بھیانک خواب" ہے۔

یاد رہے کہ سولہویں سےاٹھارہویں صدیوں تک ، کچھ مغربی یورپی طاقتیں شمالی امریکہ میں داخل ہوئیں اور اپنے ساتھ "غلامی "لائے ۔اس وقت افریقی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کی مرضی کے خلاف امریکہ منتقل کیا گیا ۔ اگرچہ 20 ویں صدی کے وسط کے بعد افریقی نسلی عصبیت کا نظام آہستہ آہستہ ختم کردیا گیا ،تاہم ، گھریلو سیاسی ڈھانچے ، تاریخی روایات ، اور نظریے کی وجہ سے ، امریکہ میں مختلف رنگ ونسل کے ساتھ تعلقات میں بنیادی طور پر کبھی بہتری نہیں آئی ۔ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی شعبوں میں نسلی امتیاز تیزی کے ساتھ نمایاں ہوتا جارہا ہے۔اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوئے ہیں اور موجودہ وبا نے امریکہ میں نسلی عدم مساوات کو مزید بڑھایا ہے۔

نسلی امتیاز کے باعث امریکہ میں مختلف رنگ و نسل والوں کے ساتھ تعلقات بدستور خراب ہوتے جارہے ہیں ، نفرت انگیز جرائم بڑھتے ہی جارہے ہیں اور معاشرتی صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ اس کے پیچھے سب سے اہم عنصر امریکی سیاستدانوں کی بے عملی بلکہ بے حسی ہے۔

امریکہ کی حکمران پارٹی اور حزب اختلاف کی پارٹی ہمیشہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عوامی رائے کا استعمال کرتی ہیں ، لیکن بہت کم سیاستدان رنگ و نسل کے امور پر ٹھوس رد عمل دیتے ہیں ۔ امریکی سیاست دان اپنے آپ کو "انسانی حقوق کے محافظ" کہتے ہیں ، لیکن ان کا اپنے ہی ملک میں نسلی امتیازی سلوک کے سنگین مسائل کو حل کرنے کا کوئی ارادہ یا طاقت نہیں ہے۔ اس سے نا صرف اس کے نظام کی خرابیاں عیاں ہوتی ہیں بلکہ "امریکی انسانی حقوق" کی منافقانہ نوعیت بھی واضح ہوتی ہے۔


شیئر

Related stories