تعصبات کا سیاہ چشمہ اتار کر حقیقت دیکھی جا سکتی ہے، سی آر آئی اردو کا تبصرہ
عالمی انتظام و انصرام کے پرامن انداز میں چلانے کے لئے بین الاقوامی برادری نے چند سنہرے اصول وضع کیے ہیں۔ جن کے مطابق ریاستوں کے باہمی تعلقات برابری، باہمی احترام اور عدم مداخلت کی بنیاد پر قائم ہونے چاہییں۔ ہر ملک خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یہی بقائے باہمی اور بنی نوع انسان کی ترقی کا مشترکہ راستہ بھی ہے۔ تاہم ماضی قریب میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں کچھ ممالک اپنے درپردہ مقاصد کے حصول کے لئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ چین کے سنکیانگ اور ہانگ کانگ سے متعلق بھی ہے۔ چین کی پرامن ترقی کا راستہ روکنے کے لئے چند مغربی میڈیا اور سیاستدان اس حوالے سے افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔
چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے سنکیانگ اور ہانگ کانگ کی صورت حال واضح انداز میں پیش کی۔ انہوں نے ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون کا جواز بیان کیا۔ اس کے علاوہ سنکیانگ کی ترقی اور وہاں بنیاد پرستی کے خاتمے میں حاصل ہونے والی مثبت کامیابیوں کو متعارف کروایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ چینی حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی پالیسیوں سے ہم وطنوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ چین میں تمام قومیتیں اعلیٰ درجے کی خود اختیاری سے لطف اندوز ہور ہی ہیں۔ انہوں واضح کیا کہ کسی بھی سوال سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سوال کرنے والا چین کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کرتا ہے اور چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
اپنے جواب میں جناب وانگ ای نے تین نکات پر روشنی ڈالی، پہلا ، ممالک کے مابین تبادلہ خیال کے دوران ، باہمی احترام اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اصول برقرار رکھنا چاہئے۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی اصول ہے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا ضابطہِ اخلاق بھی ہے۔ دوسرا ، چین کے امور کا مشاہدہ اور تبصرہ کرتے ہوئے ، ہمیں حقائق سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ ہمیں افواہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اورغیر متعصبانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ تیسرا ، چین سنکیانگ میں 90 سے زائد ممالک کے وفود کو مدعو کرچکا ہے۔ مختلف سیاسی حیثیتوں سے تعلق رکھنے والے ان مندوبین میں سے سب کا یہ اتفاق تھا کہ سنکیانگ کے بارے میں جو انہوں نے سنا تھا سنکیانگ کو اس کے برعکس پایا۔ چین آج بھی نئے دوستوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی داخلی یا خارجہ پالیسی کا تجزیہ کرتے وقت تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے اور رائے کا اظہار کرتے وقت اس ملک کے اقتدار اعلیٰ کے احترام کو مدنظر رکھنا چاہیے۔