چین کا دستاویزی موقف اقوام متحدہ کی اہمیت اور آنے والے دور میں اس کے غیر معمولی کردار کا اعتراف ہے ۔سی آر آئی اردو کا تبصرہ
دس ستمبر کو اقوام متحدہ کے قیام کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر چین کی جانب سے پیش کیا جانے والا چین کا دستاویزی موقف عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ چین ہمیشہ سے اقوام متحدہ کو عالمی برادری کا نمائندہ ادارہ مانتا ہے اور ایک ذمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے اقوم متحدہ کی قراردادوں اور دیگر فیصلوں کا احترام کرتا آیا ہے ۔ اس اہم موقع پر چین نے ناصرف اقوام متحدہ کی اہمیت اور حیثیت کا برملا اعتراف کیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے کردار ، بین الاقوامی صورتحال ، پائیدار ترقی ، اور وبائی امراض کے بارے میں چین کا مؤقف اور تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میں پہلے ہی غیر محسوس طور پر بڑی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ لیکن کووڈ- ۱۹ کی عالمی وبا نے اس صدی کی بڑی تبدیلیوں کے عمل کو یک دم تیز کر دیا ہے۔ ایک افراتفری اور اضطراب نے جیسے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، تاہم ، امن اور ترقی اب بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس تناظر میں چین کی جانب سے یہ دستاویزی موقف پیش کرنا ، کثیرالجہتی کے استحکام اور فروغ ، اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت کو مشترکہ طور پر فروغ دینے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم اور اعتماد کا ثبوت ہے۔
چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اور گزشتہ 75 سالوں کے دوران ، چین نے اقوام متحدہ کے مقاصد کےفروغ میں اہم شراکت کی ہے۔ چین پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیےپرعزم ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ غربت کےخاتمے کا ہدف چین مقررہ مدت سے قبل ہی حاصل کر لے گا ، اس کی یہی وجہ ہے کہ چین قوانین کی پاسداری کرنے والا اور اداروں کا احترام کرنے والا ایک ذمہ دار ملک ہے ، چین نے ناصرف دیہی غریب آبادی کو موجودہ معیارات کے تحت غربت سے نکالا ہے بلکہ "دی بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر جیسے اقدامات کےتحت عوامی رابطوں اور تبادلوں کے ذریعے مشترکہ ترقی کا ایک پلیٹ فارم بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔
"وبا کے بعد کا دور" کیسا ہوگا ؟ انسانیت کو دنیا میں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو گا ؟ کیا کوئی ایک فرد یا ایک ملک تنہا اس کا مقابلہ کر سکے گا؟ آنے والے وقتوں کے چیلنجز مختلف ہوں گے تو اقوام متحدہ کا کردار کیا ہو گا ؟
چین کی جانب سے اقوام متحدہ کی اہمیت اور حیثیت سے متعلق یہ دستاویزی موقف زور دیتا ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کی بحالی کے عمومی رجحان میں کیسا تغیر آیا ہے، کثیر الجہتی کے رحجان کو کیا مساٗئل درپیش ہیں ؟ اور کیامعاشی عالمگیریت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے؟یہ تمام معاملات معمولی نوعیت کے نہیں کہ جن کا حل فرد واحد کے پاس ہو ۔کثیرالجہتی کے تحفظ ، عالمی حکمرانی کو آگے بڑھانے ، اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں اقوام متحدہ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے اقوا م متحدہ کے قیام سے اب تک ان پچھتر سالوں میں چین نے ہمیشہ اس بات کو ناصرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کے استحکام میں اس عالمی ادارے کا ساتھ بھی دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب وبا پھیل رہی ہے تو عالمی برادری کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ تاہم ، تحفظ پسندی ، یکطرفہ پن اور دھونس دھمکی اس وقت عروج پر نظرآرہی ہیں ، اور کچھ ممالک کے مٹھی بھر سیاستدان بین الاقوامی تعاون کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ چین کو اس بات کا احساس ہے کہ آنے والا دور بےحد مشکل ہو گا اور اس میں باہمی تعاون و اشتراک ہی بنی نوع انسان کی بقا کا ضامن ہو گا ۔اسی لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا کو کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا چاہیے اور اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہیے کہ بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے لئے مل کر کام جاری رکھیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب تمام ممالک اقوام متحدہ کی حیثیت اور اس کی اہمیت کو قبول کریں اور اس کی قراردادوں پر ناصرف عمل کریں بلکہ ان کے استحکام اور فروغ میں بھی مثبت کردار ادا کریں ۔
یہ چین کا موقف یا اس کی جانب سے محض تجاویز نہیں ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون اور باہمی روابط کو تقویت بخش بنا کر ، چین نے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات انسانیت کے بہتر مشترکہ مستقبل کے حصول کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔