امریکہ جنوبی ایشیا میں کیا چاہتا ہے؟
امریکی ڈپٹی سکریٹری برائے خارجہ اسٹیفن ای بیگن نےاپنے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران بنگلہ دیش کے اعلی اہلکاروں سے ملاقات کی ہے۔ اس دورے کو واشنگٹن کی جنوبی ایشیاء میں اپنی موجودگی کے اظہار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
امریکہ کی نئی جنوبی ایشیا کی حکمت عملی میں کچھ مشکلات درپیش ہیں مثال کے طور پر پاک ۔بھارت تعلقات۔ پاک ۔ بھارت تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔ خاص طور پر پچھلی دہائی کے دوران دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات میں خاصی تلخی آئی ہے۔ جب واشنگٹن اسلام آباد کے قریب جاتا ہے تو نئی دہلی کو تکلیف شروع ہوجاتی ہے۔اس وقت ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے بھی انخلا کا منصوبہ بنا رہی ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت بھی بدل رہی ہے ۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت واشنگٹن انتظامیہ بیجنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی دہلی کا رخ کررہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش ، نیپال اور بھوٹان کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ در اصل ، اس کا بنیادی مقصد چین کو نشانہ بنانا ہے ، اور جنوبی ایشیا میں چین کی تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو (بی آر آئی)میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بی آر آئی کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔ یہ انیشیٹو ان ممالک میں مقبول ہو رہا ہے اور اس کے ٹھوس نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس سے وابستہ ممالک کے مابین تجارت میں 4.1 فیصد اضافہ ہو ا ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیاے امریکی وابستگی ہمیشہ مفاد کیلئے رہی ہے جب بھی امریکہ کا اپنا مفاد ہوتاہے جنوبی ایشیا کا رخ کرتاہے اور مفاد پورا ہونے پر آنکھیں پھیر لیتاہے۔
بیگن کا دورہ بنگلہ دیش، جنوبی ایشیائی ممالک کو جنوبی ایشیا میں بی آر آئی کے پیش رفت میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے راضی یا مجبور کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ جنوبی ایشیائی ممالک اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر چین اور بنگلہ دیش نے پچھلے 40 سالوں میں مستحکم فوجی تعلقات استوار کیے ہیں۔ 2014 میں ، دونوں فریقوں نے بنگلہ دیشی فوجی اہلکاروں کو تربیت فراہم کرنے کے لئے معاہدوں پر دستخط کیے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ، 2010 کے بعد سے ، بیجنگ نے ڈھاکہ کو پانچ سمندری پٹرولنگ جہاز ، دو کارویٹ ، 44 ٹینکوں ، اور 16 لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ زمین سے فضا میں مار کرنے والے اور اینٹی شپ میزائل بھی فراہم کیے ہیں۔ چین اور بنگلہ دیش کے مابین تعاون وسیع ہے ، اور ان کے سیاسی مقاصد میں ہم آہنگی ہے۔
امریکہ کی اشتعال انگیزی کے باوجود ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بنگلہ دیشی حکومت کی چین سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ دراصل بیگن کا دورہ امریکہ کی اپنی ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی کوشش کا حصہ ہے ، لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کیونکہ چین جنوبی ایشیا تعلقات کی بنیاد مضبوط ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ انتطامیہ کی "امریکہ فرسٹ" کی پالیسی نے امریکہ کے حوالے سے بنگلہ دیش کے تحفظات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
عالمگیریت کے رجحان کی مخالفت اور امریکہ کی سرد جنگ کی ذہنیت کو آگے بڑھانے کیلئے ، جنوبی ایشیا سے متعلق اختیار کی جانے والی ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی امریکہ کی جنوب مشرقی ایشیا کی حکمت عملی سے مختلف نہیں ہے۔ اس سے تمام ممالک کے قومی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا چین کا قریبی ہمسایہ ہے۔ اپنے عروج کے بعد ، چین نے جنوبی ایشیا میں ترقی کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور علاقائی ممالک کے ساتھ مساوات کی بنیاد پر مشاورت کا راستہ اپنا یا ہے ۔ ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی عالمی رجحان کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اس کے تحت امریکہ اپنے آپ کو پہلے رکھتا ہےاور عالمی سطح پر اہم کردار اداکرنے والے بڑے ملک چین کی مخالف کرتا ہے۔
امریکہ اور بنگلہ دیش نے 2019 میں دو طرفہ تجارت میں تقریبا 9 ارب ڈالر کا اشتراک کیا۔چینی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق ، 2013 سے 2018 تک ، چینی کاروباری اداروں نے بی آر آئی سے وابستہ ممالک میں۹۰ ارب امریکی ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہےان ممالک کی اوسط سالانہ شرح نمو 5.2 فیصد ہے۔ یہ اصل اور نتیجہ خیز سرمایہ کاری ہے ۔اس کے برعکس امریکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں لاکھوں ڈالر پھینکتاہے تاہم چونکہ نیت خالص نہیں ہوتی ، لہذا یہ رقم بیکار چلی جاتی ہے۔
امریکہ کا ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ اگر بنگلہ دیش یا دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک امریکہ کے ساتھ کچھ تعاون کرتے بھی ہیں اس کا زیادہ فائدہ واشنگٹن کو ہوگا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے ناطے ، امریکہ نے ہمیشہ صرف اپنے مفاد کا پیچھا کیا ہے۔
یاد رہے جنوبی ایشیا میں امریکہ کی ہند بحر الکاہل کی حکمت عملی خطے میں طاقت کے عدم توازن کو بڑھا ئے گی ۔ پہلے ہی امریکہ اور بھارت کے تعاون کے موجودہ رجحان نے جنوبی ایشیاء میں ہندوستان کی غالب پوزیشن میں اہم کردار ادا کیا ہےاور خطے میں عدم توازن کو واضح طور پر بڑھا دیا ہے ، امریکہ کی اس پالیسی نے پاکستان کے لئے بھی چیلنجز بڑھا دیے ہیں ۔تاہم امریکہ منقسم کرنے اور علاقائی امن خراب کرنے کی پالیسی سے جنوبی ایشیا میں مشکل سے اپنے عزائم حاصل کرسکتا ہے۔