چین کا تیرہواں پانچ سالہ منصوبہ اور سائنس کے کرشمے

2020-10-22 16:26:35
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

چین کی شاندار ترقی چینی عوام کی محنت شاقہ اور قیادت کی درست رہنمائی کا ثمر ہے۔ وہ منازل جن کیلئے دوسرے ممالک اور خطوں نے صدیوں کا سفر طے کیا چین نے کئی دہائیوں میں حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا۔ اسلئے پوری دنیا میں چینی کرشموں گونج ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ عظیم سنگ میل اتنے مختصر عرصے میں کیسے حاصل کیے گئے۔اس کی کئی جوابات ہیں جس میں سب سے اہم یہ کہ چین پر امن ترقی کے راستے پر انکساری کے ساتھ گامزن ہے ۔ اور اپنی ترقی کے ثمرات پوری دنیا کے ساتھ شئیر کررہا ہے ۔ دنیا کے دوسرے ممالک اور خطوں نے جب بھی ایک حد تک ترقی کے فوائد حاصل کیے تو ان سے یہ ترقی ہضم نہیں ہوئی اور کبھی توسیع پسندانہ عزائم اور کبھی اپنی بڑھائی کی دھاک بٹھانے کیلئے دوسرے خطوں کا رخ کیا اور صرف اپنے مفاد کو دیکھا دوسرے ممالک اور خطوں کے ساتھ برابری اور احترام کی بنیاد پر نہیں بلکہ رعونت اور تکبر کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے نہ صرف ان ممالک اور خطوں کا نقصان ہوا جن کا انہوں نے رخ کیا بلکہ ان ممالک اور خطوں کی اپنی ترقی بھی پٹڑی سے ہٹ گئی ۔ تاہم چین نے ایسا نہیں کیا چین نے پرامن بقائے باہمی کا راستہ اپنا یا اور نہ صرف خود ترقی کرتارہا بلکہ پوری دنیا کو اپنی ترقی کے ثمرات سے مستفید کراتا رہا اور اس میں امیر غریب کی تمیز کیے بغیر سب ممالک اور سب خطوں کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا یا ۔یہی وجہ ہے کہ آج ماسوائے چند ممالک کے سب ممالک چین کے کھلے پن اور دوستانہ رویے کے معترف ہیں ۔

جدید دنیا میں ترقی کے پیمانوں میں سب سے اہم پیمانہ سائنس و ٹیکنالوجی کا ہے۔ چین نے سائنس و ٹیکنالوجی میں پچھلے ستر سالوں میں بالعموم اور ۶۵ سالوں میں بالخصوص نمایا ں کا میابیاں سمیٹی ہے ۔ تیرہ پانچ سالہ منصوبوں میں ہر منصوبے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کیلئے اہداف رکھے گئے ان اہداف کو احسن طریقے سے حاصل کیا گیا یہ ترقی انتہائی وسیع جامع اور ہمہ گیر ہے یہاں تیرہوِیں پانچ سالہ منصوبے ۲۰۱۶ تا ۲۰۲۰ کے دوران حا صل کی گئی چیدہ چیدہ کامیابیوں کا ذکر کیا جا تاہے ۔

اس وقت چین گلوبل انوویشن انڈیکس میں ۱۴ ویں نمبر پر ہے ۔ اور دنیا کا واحد درمیانی آمدنی والا ملک ہے جوگزشتہ کئی سال سے مسلسل پہلے تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ملک کی مجموعی ترقی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کا حصہ ۲۰۱۹ کے احتتام تک ۵۹۔۵ فیصد ہوچکا ہے جس میں ۲۰۱۵ کے مقابلے میں ۴۔۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۲۰ کے احتتام تک ہدف کے مطابق ۶۰ فیصد ہوجائے گا ۔

تحقیق و ترقی کے میدان میں چین کی سرمایہ کاری میں مسلسلہ اضافہ ہ ہورہا ہے ۲۰۱۶ میں تحقیق وترقی میں سرمایہ کاری کی کل مالیت ۱۔۵۶ ٹریلین یوان رہی جو ۲۰۱۹ میں بڑھ کر ۲۔۲۱ ٹریلین یوان ہوگئی جس میں سال بہ سال کے حساب سے ۱۲۔۵ فیصد کا اضا فہ ہوا۔ اس طرح ۲۰۱۵ سے موازنہ کیا جائے تو ۲۰۱۵ کے ۱۔۴ ٹریلین یوان سے بڑھ کر یہ سرمایہ کاری ۲۔۲۱ ٹریلین یوان ہوگئی اس طرح ۲۰۱۵ کے مقابلے میں اس میں مجموعی طورپر ۵۳ فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ سرمایہ کاری ملک کی جی ڈی پی کی ۲۔۲۳ فیصد بنتی ہے جو پندرہ یورپی ممالک سے زیادہ ہے ۔ بنیادی تحقیق پر۱۳۳۔۵۶ بلین خرچ کیے گئے جو کل اخراجات کے چھ فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح تحقیق و ترقی کے میدان میں اںٹر پرائزز کی سرمایہ کاری کی مالیت ۱۔۶۹ ٹریلین یوان تک پہنچ گئی جو کل سرمایہ کاری کا ۷۶۔۴ فی صد بنتی ہے اور اس میں سال بہ سال کے حساب سے ۱۱۔۱ فیصد کا اضافہ ہوا۔

اگر پیٹینٹس کی بات کریں تو ۲۰۱۹ میں مقامی صارفین کو ۳۶۱۰۰۰ تخلیقی پیٹنٹس دیے گئے یہ تعداد دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ ۲۰۱۵ یہ تعداد ۲۶۳۰۰ تھی۲۰۱۹ کے اختتام پر چین میں فی دس ہزار افراد پر تخلیقی پیٹنٹس کی تعداد۱۳۔۳ بنتی ہے۔ اسی طرح چین نے پیٹنٹ تعاون معاہدے کے تحت ۵۹۰۰۰ بین الاقوامی پیٹنٹس کیلئے درخواست دی یہ تعداد ۲۰۱۵ کے مقابلے میں دوگنی ہے۔اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔اسی طرح چین تحقیقی مقالوں کی تعداد اور چینی مقالوں کی اعلی سطح پر دیے گئے حوالہ جات کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔

۲۰۱۹ کے احتتام تک چین میں تحقیق اور ترقی کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ۴۔۶۱ ملین رہی جس میں ۲۰۱۵ کے مقابلے میں ۲۲۔۶ فیصد کا ضافہ ہوا ۔ ترقی اور تحقیق کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے چین دنیا میں مسلسل سات سال سے پہلے نمبر پر ہے ۔چین میں دنیا کے چوٹی کے ۱۷ ٹیکنالوجی کلسٹرز موجود ہیں جن میں شینزن۔ہانگ کانگ۔ گونگ زو دنیا میں دوسرے نمبر پر اور بیجنگ چوتھے نمبر پر ہے ۔

اس عرصے کے دوران چین کی کامیابیوں میں تیانگونگ ۲ خلائی لیبارٹری کی کامیاب لانچنگ، پانچ سو میٹر عدسے والے ٹیلی سکوپ تیا نین کی تنصیب اور فعالیت، سیاہ مادے پر تحقیق کرنے والے سیٹلائٹ وو کانگ اور کوانٹم سیٹلائٹ مسیس کی لانچنگ، بیدو نیوی گیشن سسٹم کی تکمیل ، اور عالمی سطح پر خدمات کی فراہمی ، چانگ ء ۴ کی چاند کے پرلی طرف لینڈنگ اور تحقیق اور پانچ لاکھ فائیو جی بیس سٹیشنز کا قیام شامل ہیں۔ اسی طرح کووڈ۔۱۹ کی وبا پر قابو پانا اور اس کیلئے ۱۹ ویکسین کی تیاری کا عمل جن میں چار کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں ہیں وہ کامیابیاں ہیں جو چین نے طب کے میدان میں سمیٹی ہیں ۔

یہ صرف اعداد وشمار نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کے مظاہر چین کے چپے چپے میں ملتے ہیں وہ لوگ جو چین کا تھوڑے عرصہ بعد بھی سفر کرتے ہیں وہ چین میں ہونے والی تعمیری اور مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ ضرور کرتے ہیں۔چین کی پرامن ترقی کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ ترقی کے اس سفر میں چینی قیادت اور چینی عوام شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ ترقی کے اس کا میاب سفر کے ثمرات بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے نظریے کے تحت پوری دنیا تک پہنچانے کے چینی عزم میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اسلئے چین کی ترقی میں مختلف مسائل میں گری دنیا کیلئے امید اور روشنی کا پیغام ہے ۔


شیئر

Related stories