بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو شائد زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہوگا،سی آر آئی کا تبصرہ
ساڑھے تین سال کے کٹھن مذاکرات کے بعد اکتیس جنوری کو برطانیہ باضابطہ طور پر یورپی یونین سے الگ ہو گیا۔ بی بی سی نے تبصرہ کیا کہ یورپی یونین کی تاریخ میں یونین سے الگ ہونے والے پہلے رکن ملک کی حیثیت سے ، برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا یعنی "بریگزٹ" سرد جنگ کے بعد یورپ میں سب سے اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا مرکل یہ کہتے ہوئے اپنا افسوس چھپا نہیں سکیں کہ "بریگزٹ" نے جرمنی اور یورپی یونین کو ایک گہرا زخم لگایا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانول میکرون ، جو کہ یورپی یکجہتی کے علمبردار ہیں ، نے اکتیس جنوری کو کہا کہ برطانیہ کا "بریگزٹ" یورپی یونین کے لئے ایک دھچکا ہے اور "تاریخی انتباہ" ہے۔ یورپی باشندوں کو ایک زیادہ مضبوط اورموثر یورپی یونین تشکیل دینی چاہیے جس کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ "بریگزٹ" نے یورپی سیاسی رہنماؤں کے دل کو گہرا دھچکا دیا ہے۔
مستقبل میں برطانیہ کو نئے نقاط میں نئی پوزیشن کی تلاش کرنی ہوگی۔ لوگوں نے دیکھا ہے کہ جیسے ہی "بریگزٹ" کا عمل شروع ہوا ہے ، برطانیہ، جنوبی کوریا ،امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ متعلقہ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے مشاورت کرنے لگا ہے۔اس کے علاوہ ، برطانیہ چین کے ساتھ دوطرفہ ایف ٹی اے مذاکرات کو جلد از جلد شروع کرنے کا خواہشمند ہے ، تاکہ چین اور برطانیہ کے تعلقات کو "سنہری دور" بنانے کے لئے طاقت پیدا کی جائے۔ ظاہر ہے کہ تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھانا اس سال وزیر اعظم جانسن کے کام کی اولین ترجیح ہے ، اور یہ عالمی منظر کی ترتیب نو کے عمل میں اپنی نئی پوزیشن تلاش کرنے کے لیے برطانیہ کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔