امریکہ میں سنگین وبائی صورتحال اور ستر قیمتی دنوں کا ضیاع
امریکہ میں چھ لاکھ مصدقہ کیسز ، 25575 اموات ، ،واشنگٹن ڈی سی اور چار بیرونی مقامات سمیت پچاس متاثرہ ریاستیں ،یہ سب سنگین وبائی صورتحال سے دوچار ہیں جو امریکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے ۔
دو ہزار انیس میں امریکہ میں وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے آٹھ ماہ تک جاری رہنے والی ایک مشق کا انعقاد کیا گیا تھا اور اکتوبر میں اس مشق کی رپورٹ صدر ٹرمپ کو پیش کی گئی ۔لیکن جب کووڈ-۱۹ کی وبا پھوٹنے لگی تو امریکہ نے مذکورہ رپورٹ کے برعکس نستباً تمام غلطیاں دوہرائی ہیں۔
تین جنوری سے چین نے ڈبلیو ایچ او اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو وبا سے باقاعدہ خبردار کیا،امریکہ کے وزیر صحت اور عوامی خدمات الیکس آزار نے اٹھارہ جنوری سے ہی ٹرمپ کو معلومات فراہم کرنا شروع کر دی جسے صدر ٹرمپ کی جانب سے روکا گیا اور اسے خطرات کو جان بوجھ کر بڑھانا قرار دیا گیا۔
جنوری کے دوران دیگر ماہرین نے اس خطرے کی تصدیق کی اور لازمی اقدامات کی سفارش کی۔لیکن اکیس جنوری کو امریکہ میں وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے تک کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
نیویارک ٹائمز کے خیال میں ٹرمپ کووڈ-۱۹ وبا کی شدت کا اندازہ لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے صرف نظر کیا۔
پانچ فروری کو الیکس آزار نے طبی سامان کی خریداری کے لیے وائٹ ہاؤس سے چار ارب ڈالرز کے فنڈ کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پانچ مارچ کو سینٹ نے آٹھ ارب تیس کروڑ امریکی ڈالرز کے بجٹ کی منظوری دی لیکن اُس وقت تک ایک ماہ گزر چکا تھا۔
وزارت صحت اور عوامی خدمات سمیت دیگر امریکی اداروں نے بھی وائرس کی جانچ کے کلیدی مرحلے کو ضائع کر دیا۔
وفاقی حکومت کے سست ردعمل کے باعث امریکہ کی مختلف ریاستوں نے یکے بعد دیگرے ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے خود کو بچانے کی کوششیں شروع کیں۔پھر اکتیس مارچ کو ٹرمپ نے قومی ہنگامی صورتحال کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن اُس وقت امریکی حکومت کو انتباہ کے بعد ستر روز گزر چکے تھے