ایک کہانی چین کی

2017-11-16 10:47:09
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

محمد مہدی

محمد مہدی

چینیوں کی مہمان نوازی چینی کی مانند میٹھی ہوتی ہے ۔ دو ماہ میں دوسری باری چین کی   سر زمین پر تھا اور اس بار تو وفد کی قیادت بھی  سپرد تھی ۔گزشتہ برس بھی ایسی ہی دعوت تھی مگر بوجوہ جا نہ سکا تھا ،بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے دفتر میں چینیوں سے گفتگو  کے دوران بات چیت یہاں پہ آئی کہ سی پیک کے مخالفین سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے تو میں نے کہا کہ آپ کو  چین کی ایک لوک کہانی سناتا ہوں۔سارا سبق اس میں موجود ہے کہیں ایک سردار اس کا خادم اور علاقے کا معروف بڑھئی رہا کرتے تھے بڑھئی  کی شادی جس سے ہوئی  ،خادم بھی اسی پر فدا ہو گیا ۔ اور بڑھئی سے نجات پانے کے طریقے تلاش کرنے لگا کہ اچانک سردار کا انتقال ہو گیا اور خادم نے اس واقعے کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے غنیمت جانا ،بدھ مت کے قدیم رسم الخط  کو چوری چھپے سیکھنا شروع کر دیا اور کچھ عرصے میں ہی اس پر دسترس حاصل کر لی ایک تحریر اس رسم الخط میں تحریر کی اور سردار کے پاس لے گیا کہ مجھے یہ تحریر ملی ہے میں خود تو اس کو پڑھنے کے قابل نہیں لہذا آپ کے پاس لے آیا ہوں ۔  نوجوان سردار نے وہ تحریر اپنے منشی کو دی کہ پڑھو منشی اس قدیم رسم الخط سے واقف تھا تحریر پڑھی تو اس نے نوجوان سردار کو بتلایا کہ یہ آپ کے مرحوم والد نے جنت سے آپ کے نام خط بھیجا ہے کہ میں جنت میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہو گیا ہوں اختیارات اور وسائل سب موجود ہیں  مگر میرے پاس رہنے کے لئے کوئی حویلی نہیں ہے تم اپنے پاس سے بڑھئی روانہ کر دو تاکہ میں حویلی کی تعمیر کا بندوبست کر سکوں ، نوجوان سردار کو مرحوم باپ سے بڑی محبت تھی بہت افسوس ہوا کہ اس کے پاس وہاں رہنے کے لئے حویلی نہیں ہے فوراً بڑھئی کو طلب کیا کہ تمہیں  جنت روانہ کرنا ہے ۔ بڑھئی اس افتاد سے گھبرا گیا  اور انکار کی جرات نہ کر سکا عرض کیا کہ مجھے یہاں کے معاملات نبٹانے کےلئے سات روز  کی مہلت درکار ہے ۔ آٹھویں روز میرے گھر کے عقب میں کھیتوں میں گھاس پھونس جلانے کی رسم سے مجھے الوداع کر دیجئےگا ۔ نوجوان سردار مان گیا بڑھئی وہاں سے نکلا تو پہلے اس جستجو میں ہوا کہ یہ جنت والا معاملہ ہے کیا اس کو علم ہوا کہ خادم نے یہ کہانی سنائی ہے سمجھ گیا کہ یہ سب مجھے مار ڈالنے کی سازش ہے اپنے گھر واپس آیا اور بیوی کو حالات سے آگاہ کیا اور اس کو کہا کہ بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہماری خواب گاہ سے گھر کے عقب والے کھیت تک ایک سرنگ کھو دی جائے  اور سرنگ کے دھانے پر ایک پتھر کی سل رکھ دی جائے اور اس پر مٹی ڈال دی جائے جب آگ لگے تو  میں اس سل کو ہٹا کر خوابگاہ  میں آجاوَں گا اور ایک برس تک روپوش رہوں پھر کوئی سبیل نکالوں گا ۔ دونوں نے راتوں  کو سرنگ کھو دی جب آٹھواں دن ہوا تو سردار نے گھاس پھونس  جلانے  کی رسم کا کہا بڑھئی  اوزاروں کا تھیلا لے کر آ گیا اور بیچ میں کھڑ ا ہو گیا آگ لگائی گئی جب دھواں پھیل گیا تو بڑھئی جھٹ سے پتھر کی سل ہٹا کر اپنی خوابگاہ میں پہنچ گیا اور ایک سال تک روپوش رہا ۔ اس دوران اس نے بھی بدھ مت کے قدیم رسم الخط پر دسترس حاصل کر لی اور ٹھیک ایک سال بعد اوزاروں کا تھیلا  لے کر ٹھیک اسی جگہ پر کھڑا ہو گیا جہاں سے جنت روانہ کیا گیا تھا ۔سب سے پہلے اس کی بیوی نے ہی دیکھنے کا ڈرامہ کیا اور مارے خوشی کے سردار کے گھر پہنچ گئی کہ بڑھئی  واپس آ  گیا ہے سردار اور سارا گاوَں بھی وہاں پہنچ گیا ، بڑھئی نے سردار کو بتایا کہ مرحوم سردار کے لئے جنت میں حویلی تعمیر کر آیا ہوں اور اب مجھے مرحوم سردار نے واپس اس خط کے ہمراہ بھیجا ہے اور خط نوجوان سردار کے حوالے کر دیا ۔ منشی نے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ حویلی تیار ہو گئی ہے پر مجھے اپنا پسندیدہ خادم درکار ہے لہذا اس کو جنت روانہ کر دو ۔خادم تھرا گیا مگر پھر سوچا کہ بڑھئی بھی تو جنت سے واپس آ گیا ہے حالانکہ یہ میرا فریب تھا  شائد مجھ میں کوئی ایسی طلسمی طاقت ہے کہ جو کہاوہ ہو گیا ۔ اب خود بھی جنت چلتے ہیں ۔راضی  ہو گیا اسی طرح سات دن کی مہلت لی اور  آٹھویں دن آگ میں کھڑا ہو گیا ۔اب آگ بجھی تو بس فرق صرف اتنا تھا کہ کچھ جلی ہوئی ہڈیاں راکھ کے ڈھیر میں موجود تھیں ۔ یہ کہانی  سنا کر میں بولا کہ دشمن بسا اوقات طاقتور  بھی ہوتا ہے اور حالات بھی اس کے موافق  ہوتے ہیں ۔یا تو دشمن کو اپنے موافق کر لو یا پھر تدبیر سے اس کا دھڑن تختہ  کر ڈالو  سی پیک کے معاملے میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں ہمیں یہ ہرگز توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے دشمن اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لینگے ۔ تجزیہ یہ صرف میرا ہی نہیں تھا بلکہ میں  نے چین میں جس چینی سے بھی گفتگو کی تو محسوس یہی  کیا کہ وہ سی پیک  کے خلاف سازشوں  کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کے داخلی حالات میں آئی تبدیلیوں کو سی پیک  کا نام سن کر ہی جلتے بھنتے ممالک کی کارستانی تصور کر رہے ہیں ۔ کے کیسے سی پیک کے حوالے سے سب سے مضبوط شخصیت کو اقتدار سے بیدخل  کروایا گیا اور اب سبق سکھانے کے لئے جالا بنا جا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ جالا سب سے کمزور ہوتا ہے چینی اچھی طرح سے یہ جانتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ  سی پیک  کی کامیابی  سے منسلک ہے  سی پیک اس کاآغاز  بھی ہے ۔ اور پائلٹ  پروجیکٹ بھی لہذا اس کو پاکستان کے اندر سے معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور اس کے لئے سب سے آسان ہدف بلوچستان ہے ۔ بلوچستان میں جاری قوم پرستی کے نام پرشورش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور مذہبی  بنیادوں پر تشدد وہ حربہ ہے کہ جس کے ذریعے پورے پاکستان کو بدامنی کی لپیٹ میں لیا جا سکتا ہے ۔ وہاں یہ احساس بہت مضبوط ہے کہ بلوچستان  سی پیک کا اختتام  اور سنکیانگ  سی پیک  کا آغاز اور دونوں طرف ایک ہی انداز میں جاری مذہبی بنیادوں پر تشدد  کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی  جا رہی ہیں چاہے تاکہ سی پیک پر مجبوراً چین کو  دوبارہ غور کرنا پڑے۔ امریکہ کہ تھنک ٹینکوں میں ہونے والے مباحثوں  میں یہ گفتگو کہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان  میں جاری تشدد کی روش سی پیک کو ناکام کر دےگی ۔پھر امریکہ میں یہ بھی گفتگو  ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ماضی کی فوجی آمریتیں ہمہ وقت غیر یقینی  سیاسی حالات کا سبب ہیں  اور کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے  یہ  تصور سی پیک  کے مکمل ہونے میں سب سے بڑی رکاوَٹ ہے ۔ امریکہ کے حوالے سے یہ سوچ بھی ہے کہ امریکہ سی پیک  سے معاشی مفادات  بھی  حاصل کرنا چاہتا  ہے  ۔ مگر اسکو خطے  میں  اور مفادات بھی عزیز ہیں ۔  لہذا  وہ اس کو کم از کم مقررہ وقت کی بجائے تاخیر میں ڈال دینا چاہتا ہے  چینی اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ یہ ہتھیار صرف مباحثوں  میں نہیں ہیں بلکہ استعمال بھی ہو رہے ہیں  ایسی صورت میں پاکستان دو بارہ خراب معاشی کارکردگی  کی جانب پلٹ جائے گا  اور نتیجتاً  آئی ایم ایف کے پاس واپسی،  جس کا سابقہ ریکارڈ چین کے دوستوں کے حوالے سے اچھا نہیں اس بات کو بہت شدومد سے سمجھا جا رہا ہے کہ دشمن موافق  ہو جائے ورنہ کسی طرح جلانا تو پڑےگا ہی ۔ 

شیئر

Related stories