امریکہ کے محصولاتی اقدامات عالمی تجارتی تنظیم سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے عالمگیریت کے فروغ اور عالمی معیشت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ہیں۔ پاکستانی تجزیہ نگار

2018-03-29 16:11:38
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

 امریکہ کے محصولاتی اقدامات عالمی تجارتی تنظیم سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے عالمگیریت کے فروغ اور عالمی  معیشت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے بڑا   دھچکا ہیں۔ پاکستانی تجزیہ نگار

 

ڈاکٹر امجد عباس خان مگسی پاکستانی کے معروف سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔عالمی و علاقائی امور  پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور پاکستانی میڈیا میں آپ کے تبصرے ، تجزیے شائع اور نشر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد عباس خان مگسی پاکستان کی جامعہ پنجاب  میں شعبہ سیاسیات سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر امجد عباس خان مگسی  نے چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کی اردو سروس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کا فیصلہ  دانشمندانہ نہیں ہے۔چین اور امریکہ اس وقت دنیا کی دو بڑی معیشتیں ہیں اور دونوں ممالک مل کر نہ صرف ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی بلکہ عالمگیر اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے رہنماء کردار ادا کرتے رہے ہیں۔چین۔امریکہ تعاون کی بدولت عالمی معیشت بہتری کی جانب جا رہی تھی اور معاشی بحالی کا عمل خوش اسلوبی سے جاری تھا لیکن اس وقت فریقین کے درمیان تجارتی محاز آرائی سے نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی صورتحال بلکہ عالمی معیشت بھی متاثر ہو گی۔امریکی فیصلے کے اثرات اسٹاک مارکیٹس پر  ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور کاروباری کمپنیوں کے حصص تنزلی کا شکار  ہوئے ہیں ۔  اگر امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر عائد کی جانے والی محصولاتی فہرست جاری کر دی جاتی ہے تو  صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔

 

پاکستانی تجزیہ نگار کے مطابق " امریکہ کے معاشی ماہرین ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے بیانات ہمارے سامنے آ چکے ہیں جس میں انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد اُن کی جانب سے چین مخالف ایک خاص نقطہ نظر سامنے آیا اور ٹرمپ کی جانب سے سب سے پہلے امریکی مفادات کی بات کی جاتی ہے اور تجارتی تحفظ پسندی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے "۔صدر ٹرمپ کے خیال میں تجارتی تحفظ پسند پالیسی اختیار کرتے ہوئے امریکی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب عالمی معیشت میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اُن کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن میرے خیال میں اِس پالیسی سے امریکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔"میرے خیال میں بات چیت اور مشاورت کے زریعے تجارتی تنازعات کو حل کرنا چاہیے کیونکہ امریکہ کے یک طرفہ اقدامات چین۔امریکہ سمیت کسی کے مفاد میں نہیں ہیں"۔

ڈاکٹر امجد عباس خان مگسی  کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو چین امریکی مصنوعات کی ایک بہت بڑی منڈی ہے اور اگر چین بھی جوابی ردعمل میں امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرتا ہے تو  امریکی مصنوعات بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گی۔جب امریکی برآمدات متاثر ہوں گی تو اس کے اثرات امریکی صنعتوں پر بھی مرتب ہوں گے۔جب صنعتیں متاثر ہوں گی تو امریکہ کا متوسط طبقہ ، پیشہ ور طبقہ اور کمپنیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے جس سے مجموعی طور پر امریکی  معاشرہ اور معیشت متاثر ہو گی۔دوسری جانب امریکی فیصلے سے وہ ممالک بھی متاثر ہوں گے جن کے امریکہ سے تجارتی مراسم ہیں۔

 

پاکستانی تجزیہ نگار کے خیال میں عالمی تجارتی تنظیم سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے عالمگیریت کے فروغ اور عالمی  اقتصادی بحالی کے عمل میں کی جانے والی کوششوں کے لیے حالیہ امریکی فیصلہ ایک بڑا دھچکا ہے۔چین کی جانب سے ابھی تک جوابی اقدامات نہیں لیے گئے ہیں لہذا امریکہ کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ بات چیت کے زریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرئے۔   


شیئر

Related stories