پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ، ماہر معیشت اور پاکستان کے معروف تھنک ٹینک " انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن " کے سربراہ ولی زاہد کی بیجنگ میں ایشیائی تہذیب وتمدن کی پہلی مذاکراتی کانفرنس میں شرکت کے دوران چائنا ریڈیو انٹرنیشنل سے خصوصی گفتگو
پاکستانی تجزیہ نگار ولی زاہد کے مطابق اگر ہم دنیا کی حقیقی معیعشتوں کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیں تو اس حوالے سے ہمیں ایشیا ہی سبقت لے جاتا نظر آتا ہے جب کہ یورپ اور امریکا اس منظر نامے پر نظر نہیں آتے۔ چین اور برصغیرزمانہ قدیم سے ہی دنیا کی بڑی معیشتیں رہے ہیں۔
ولی زاہد کہتے ہیں کہ موجود عہد میں چین کے اصلاحات و کھلے پن کے چالیس سال کو دیکھیں تو اس عرصے میں چین نے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بعد چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی صورت میں ابھرا۔ آج سے پانچ برس قبل چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے تقریباً ایک ٹرلین امریکی ڈالرز سے بھی زیادہ مالیت کے ترقیاتی منصوبے "دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کا اعلان کیا۔ موجودہ کانفرنس چین کے صدر کی جانب سے ایک ایسا اقدام ہے جو ایشین اقوام کو ایک نیا پیلٹ فارم اور موقع فراہم کرے گا اور اس کے دور رس اثرات ہوں گے جو ہم آنے والے دنوں میں دیکھ سکیں گے۔
پاکستانی تجزیہ نگار کے خیال میں ایشین فہم و فراست بہت ہی اہم ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ ایشیا کی صدی ہے۔ سن 2050 تک ایشیا کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہو گی۔ امریکا اور مغرب " جیت-ہار اور زیرو سم گیم" پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایشیا خصوصاً چین " جیت-جیت اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی بات کرتا ہے۔ چین برابری کی سطح پر اقوام کے درمیان تعاون کے فروغ کی بات کرتا ہے۔
پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ، ماہر معیشت اور پاکستان کے معروف تھنک ٹینک " انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن " کے سربراہ ولی زاہد کی بیجنگ میں ایشیائی تہذیب وتمدن کی پہلی مذاکراتی کانفرنس میں شرکت کے دوران چائنا ریڈیو انٹرنیشنل سے خصوصی گفتگو