پاکستان کے معروف تھنک ٹینک " سنٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز" کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد تیمور اکرم کی چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے خصوصی بات چیت
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے چینی حکومت کے اقدامات اور "سی جی ٹی این" کی دستاویزی فلمیں
چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔پاکستان کے سبھی حلقوں میں چین کے اقدامات کو سراہا جاتا ہے۔مجھے گزشتہ دنوں ارمچی سمیت سنکیانگ کے دیگر شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا اور چینی حکومت کے انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی اقدامات کے عینی مشاہدے کے بعد وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چینی حکومت معاشرے کی بہتری کے لیے یہ سارے اقدامات کر رہی ہے۔
ان سارے اقدامات کے تناظر میں مغربی میڈیا کا چین مخالف بے بنیاد پروپیگنڈہ پہلے بھی تھا اور اب بھی جاری ہے۔پاکستانی عوام بھی مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔سنکیانگ میں حقائق چینی حکومت کے اقدامات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ اگر مقامی لوگوں سے بات کی جائے اور سنکیانگ کا دورہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چین کے اقدامات علاقائی امن کے لیے نہایت ضروری اور احسن ہیں۔
امریکی ایوان نمائںدگان کی جانب سے "ویغور انسانی حقوق پالیسی بل 2019" کی منظوری
امریکہ کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں ہمیشہ سے دوغلی رہی ہیں۔ کیا امریکہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ اُس نے عراق میں کیا کیا ؟ امریکہ شام میں کیا کر رہا ہے ؟ حتیٰ کہ جنوبی امریکہ میں بھی امریکی کردار سب کے سامنے ہے۔دنیا جانتی ہے کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کس قدر غیر سنجیدہ ہے اور حقائق کے برعکس ایسے ہی بے بنیاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔موجودہ امریکی حکومت کا کام صرف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔امریکہ چین کے دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتا لہذا امریکی اقدامات کو "تعصب" پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سنکیانگ میں اقتصادی سماجی ترقی کے اثرات
سنکیانگ میں چینی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام لازمی اقدامات کیے گئے ہیں۔سنکیانگ میں انتہائی خوبصورت مساجد بے تحاشا موجود ہیں۔مسلمان آزادی سے نماز کی ادائیگی سمیت اپنے دیگر مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں اور سماجی زندگی میں بھی انھیں کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔سنکیانگ میں ارمچی سمیت دیگر علاقوں میں اگر آپ شاندار بنیادی انفراسٹرکچر دیکھیں تو وہ کسی بھی لحاظ سے اندرون چین کے بڑے شہروں سے مختلف نہیں ہے۔