چین کے خصوصی انتظامی علاقے مکاو کی اقتصادی سماجی ترقی،ایک پاکستانی کی نظر میں
لعل دنو مری بلوچ چین کے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ میں پاکستان کے اعزازی کمرشل قونصلر اور معروف صنعتکار ہیں۔اُن کی مکاو میں تعمیر وترقی کے حوالے سے چائنا میڈیا گروپ سے خصوصی بات چیت
میزبان: شاہد افراز خان
چین کے خصوصی انتظامی علاقے مکاو نے مادر وطن میں واپسی کے بعد گزشتہ بیس برسوں کے دوران " ایک ملک ،دو نظام " کے تحت تاریخی ترقی کی ہے۔مجھے انیس سے ترانوے میں پہلی مرتبہ مکاو جانے کا اتفاق ہوا اور اس وقت مکاو ترقی کے اعتبار سے کافی پیچھے تھا لیکن انیس سو ننانوے میں مادر وطن میں واپسی کے بعد " ایک ملک، دو نظام " کے کامیاب نفاذ سے مکاو کی اقتصادی و سماجی ترقی کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوا جو آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔مکاو نے اس وقت جی ڈی پی ، انفراسٹرکچر ، مالیات ،سیاحت ، ترقیاتی منصوبہ جات غرضیکہ تمام شعبہ جات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔دنیا میں سمندر کے اوپر تعمیر کیا جانے والا سب سے بڑا پل بھی مکاو اور ہانگ کانگ کے درمیان ہے۔مکاو " ایک ملک ،دو نظام " کے تحت ایک اعلیٰ معیار کی خودمختاری برقرار رکھے ہوئے ہے اور دنیا میں ایسی کوئی دیگر مثال موجود نہیں ہے۔
میرے خیال میں چین کا " ایک ملک ،دو نظام " موجودہ صدی میں اندرونی و بیرونی مسائل کے حل کا سب سے عظیم نظام ہے یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک بھی چین کے اس نظام کو سراہتے ہیں اور چین سے سیکھنا چاہتے ہیں۔
مکاو کا بنکنگ شعبہ اس وقت تیزترین ترقیاتی مراحل طے کر رہا ہے۔ چین۔پاک اقتصادی راہداری اور بیلٹ ایند روڈ کی تعمیر میں مکاو اور ہانگ کانگ کی فعال شمولیت ہے۔چینی حکومت کی جانب سے گریٹر بے ایریا کی تعمیر میں مکاو کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور مکاو کے شہری مستقبل میں بڑے پیمانے پر اس ترقیاتی منصوبے سے استفادہ کریں گے۔گوانگ دونگ۔ہانگ کانگ۔مکاو گریٹر بے ایریا کے ترقیاتی منصوبے میں چینی حکومت نے ایک جامع لائحہ عمل اور پالیسی ترتیب دی ہے اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ چار سے پانچ برسوں میں یہ علاقہ عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کا ایک عظیم مرکز کہلائے گا۔
ہانگ کانگ سیاحت کے لیے آنے والی پاکستانیوں کی دوسری منزل مکاو ہوتی ہے۔گریٹر بے ایریا کے تحت جوں جوں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہو گا اسی قدر پاکستان کی بزنس کمیونٹی اور مکاو کے درمیان روابط فروغ پائیں گے ،سیاحت کے مواقعوں میں اضافہ ہو گا ،افرادی و ثقافتی تبادلے بڑھیں گے اور ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن سے ہم آہنگی میں مدد ملے گی۔