نوول کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی، تحقیقی رپورٹ
مصنف: زبیر بشیر
ایڈیٹر: یہ فونگ
دنیا میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ نوول کورونا وائرس کووڈ -19 کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور یہ کیسا پھیلا؟ اس مضمون میں ایسے بہت سے سوالات کے قابل تشفی جوابات سائنسی بنیادوں پر دئیے گئے ہیں۔
امریکہ کی ٹولین یونیورسٹی میں علم الوائرس کے ماہر پروفیسر رابرٹ گیری نے حال میں اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے تجزیے کے مطابق ، چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ نوول کورونا وائرس کا ماخذ نہیں ہے۔ تاہم ووہان میں سب سے پہلے اس وائرس کی تشخیص نے دنیا بھر کی توجہ اس جانب مبذول کروا دی تھی۔
رابرٹ گیری کہتے ہیں کہ یہ وائرس فطری طور پر پیدا ہوا ہے۔
اس سے قبل سترہ مارچ کو، اعلی درجے کے بین الاقوامی علمی جریدے "نیچر میڈیسن" نے امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پانچ سائنس دانوں کا مشترکہ تصنیف کردہ ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ اس مقالے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نوول کورونا وائرس لیبارٹری میں تیاری نہیں کیا گیا، نہ یہ کسی خاص مقصد کے تحت بنایا گیا ہے اور اس کی ساخت یہ بتاتی ہے کہ اسے قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اٹھارہ مارچ کوامریکہ کی مذکورہ یونیورسٹی کی سرکاری ویب سائٹ نے اس مقالے کے مصنف اور معروف وائرالوجسٹ رابرٹ گیری کا انٹرویو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا۔ اپنے انٹرویو میں گیر نے کہا کہ " میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ حیاتیاتی ہتھیار نہیں ہے۔ کسی نے بھی اس وائرس کو لیبارٹری میں نہیں بنایا ہے۔ یہ قدرت کی پیداوار ہے۔ اب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ وائرس انسانوں میں کب سے زندہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ صرف چند مہینوں ، شاید سالوں یا عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے یہ انسانی جسم میں موجود ہو اور پھر اچانک اس کی ساخت میں کوئی تغیر آیا جس نے اسے تیزی سے پھیلادیا۔ "
معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ستائیس تاریخ کو ، اے بی سی نے گیری کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں گیری نے ایک اہم پیغام میں کہا: اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان کی" سی فوڈ مارکیٹ میں ہوئی ہے ، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے تجزیہ کے ساتھ ساتھ کچھ سائنس دانوں کا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ وائرس ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے کہیں پہلے کا معاملہ ہے۔ " گیری نے کہا ، "ووہان سی فوڈ مارکیٹ سے متعلقہ کچھ لوگ اس کا شکار ضرور ہوئے ہیں، لیکن یہ وائرس وہاں پیدا ہوا اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔"
اس وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اس وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ اب تک ایک بڑی تعداد میں محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ وائرس بہت سی دوسری جگہوں پر پیدا ہو سکتا ہے۔
چوبیس جنوری کو ،" لانسیٹ "کے آن لائن ورژن نے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس میں ووہان جین انتھان اسپتال کے سات معالجین کے تجربات شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس اسپتال میں زیر علاج نوول کورونا وائرس کے ابتدائی اکتالیس کیسز میں سے 13 افراد اسیے تھے جن کا ووہان سی فوڈ مارکیٹ سے قسم کسی کا کوئی تعلق یا رابطہ نہیں تھا۔ حتی کہ وہ یا ان کے قریبی افراد میں سے کوئی بھی وہاں نہیں گیا تھا۔
26 جنوری کو ،امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے متعدی بیماریوں کے ماہر ڈینیئل لیسی کا ایک مضمون صف اول کے تحقیقی جرنل " سائنس" میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں لیسی نے کہا "جنوبی چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ نوول کورونا وائرس کی جائے پیدائش نہیں ہے۔ اس حوالے سے کوئی مستند شواہد تو کیا ، تھوڑے سے شواہد بھی موجود نہیں ہیں۔"ان کا خیال ہے کہ اگر اس وائرس نے ایسی ہی کسی جگہ سے جنم لینا تھا تو اس سے زیادہ مقامات کئی اور جگہوں پر موجود ہیں"۔
چین کے ممتاز سائسندان جونگ نان شان نے بھی حال ہی میں نشاندہی کی تھی کہ یہ وبا پہلے چین میں ظاہر ضرور ہوئی تھی ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کی ابتدا چین میں ہوئی ہو۔
کچھ دن پہلے ، کینیڈا کے تھنک ٹینک "گلوبل ریسرچ" کی ویب سائٹ پر لیری رومانوف کے دستخط سے ایک مضمون شائع ہوا، مضمون کے مطابق چین، اٹلی اور ایران کے متاثر افراد میں پائے جانے والے وائرس کی ساخت مختلف ہے۔ مضمون میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے چین پر زیادہ توجہ دینے کے باعث ، بہت سارے لوگوں کا ابتدائی خیال یہ تھا کہ نوول کورونا وائرس چین سے دوسرے ممالک میں منتقل ہوا تھا ، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ نظریہ غلط ثابت ہورہا ہے۔
26 تاریخ کو ، دنیا کے ایک اور موقرعلمی جریدے "سیل" نے شنگھائی ، فوڈان یونیورسٹی سے وابستہ پبلک ہیلتھ کلینیکل سنٹر کے پروفیسر چانگ یونگ زن اور اسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر ایڈورڈ ہومز کا مشترکہ تصنیف کردہ ایک مضمون شائع کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہےکہ دسمبر 2019 میں آبادی میں "کریپٹیک ٹرانسمیشن" کے مرحلے میں نوول کورونا وائرس میں کچھ اہم تغیرات ہو ئے جنہوں نے اسے اتنا طاقتور بنا دیا۔
سائنس پر یقین رکھیں اور تعصب سے بچیں
اس وقت سائنسدان تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر حقائق کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں۔ وائرس کے خلاف بہتر تحقیق کے لئےاب ان کیسز پر زیاہ سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے جن کا براہ راست چین سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثال کے طور پر ، کیلیفورنیا میں سامنے آنے والے کیسز میں مریضوں نے ایک طویل عرصے سے کبھی بھی اپنے علاقے سے باہر سفر اختیار نہیں کیا تھا۔ اسی طرح ایران میں سب سے پہلے تشخیص ہونے والے دو مریض ایسے ہیں جو نہ تو کبھی چین گئے اور نہ ہی انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ ملاقات کی جو چین گئے تھے۔ جاپان ایک متاثرہ شخص ایسا ہے جو چین نہیں گیا ۔
بی بی سی اور دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق ، اگرچہ برطانیہ میں نوول کورونا وائرس کا پہلا کیس اکتیس جنوری کو سامنے آیا، لیکن وسط جنوری میں برطانیہ کی سسیکس کاونٹی میں ایک ایسا کنبہ موجود تھا جو نوول کورونا وائرس کا شکار ہوا۔ اس خاندان کے افراد کبھی کسی چینی سے رابطے میں نہیں آئے تاہم دسمبر 2019 میں ان کی ملاقات چند امریکیوں سے ہوئی تھی۔
تو وائرس کہاں سے آیا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک جملے میں موجود ہے،" سائنسی انداز سے سوچنے اور سائنسی طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کریں"۔
اس سے قطع نظر کہ وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی ، اسے کسی نسل ، رنگ یا علاقے سے منسوب نہ کریں۔ یہی عالمی اتفاق رائے اور انسانی ضمیر کی متفقہ آوز ہے!