مودی کا چین ۔ بھارت سرحدی علاقے کا ہنگامی دورہ ، کون "توسیع پسندی" کا پرستار؟

2020-07-05 17:05:11
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

 

تین جولائی کو بھارتی وزیراعظم مودی نے چین ۔ بھارت سرحدی علاقے میں واقع  لیہ کا ہنگامی دورہ  کیا۔لیہ بھارتی فوج کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا  جب چین  اوربھارت کے سرحدی دستوں کے درمیان  وادی گیلوان میں جسمانی جھڑپ ہوئی تھی، اور یہ جگہ لیہ سے  زیادہ دور نہیں ہے۔ ایسے نازک لمحات میں مودی کے اتنے حساس مقام کے دورے کا کیا مقصد  ہے؟

 ہندوستان ٹائمز  کے مطابق مودی نے لیہ میں بھارتی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ توسیع پسندی کا دور ختم ہو چکا ہے۔یہ ترقی کا عہد ہے۔توسیع پسندی کے پیروکار  دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوئے  ہیں۔تاریخی شواہد واضح کرتے ہیں کہ  ایسی قوتیں یا تو تباہ ہوئیں یا پسپائی پر مجبور ہو گئیں۔۔۔ساری دنیا  توسیع پسندی کے خلاف متحد ہورہی ہے۔اگرچہ مودی نے اپنے خطاب میں چین کا براہ راست ذکر نہیں کیا، تاہم اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں  کہ انہوں نے چین کے حوالے سے ہی یہ سب باتیں کی ہیں ۔مودی نے اپنے خطاب میں وادی گیلوان میں ہلاک ہونے والے بھارتی سپاہیوں کی خدمات کو سراہا  اور کہا کہ ان سپاہیوں کی  بہادری کی بدولت پوری دنیا کو  بھارت کی جانب سے ایک طاقتور  پیغام ملا ہے۔مودی کے مطابق  بھارت کے دشمن کو بھارتی فوج کے غضب کی ایک جھلک دکھلائی گئی ہے۔کمزور فریق  کبھی امن کو یقینی  نہیں بنا سکتا ہے اور بہادری امن کی بنیاد ہے۔ایسے اشتعال انگیز  بیانات کے علاوہ مودی نے  وادی گیلوان میں زخمی ہونے والے بھارتی سپاہیوں کی عیادت بھی کی۔

 چین اور بھارت کے درمیان وادی گیلوان میں ہونے والے تصادم  کے بعد چین مسلسل  صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے قیام امن کو عمل میں لانا چاہتا ہے۔تاہم چین  کے برعکس، بھارت اپنی  اشتعال انگیز  کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔بھارتی حلقوں میں مودی کے لیہ کے ہنگامی دورے کو جرات مندانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مودی کے دورے نے بھارتی فوج کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ چین کو بھی اشتعال انگیز پیغام دیا ہے۔علاوازیں مودی کا دورہ ملک میں حزب اختلاف کی جانب سے وادی گیلوان واقعے پر  بھارتی حکومت کی خاموشی پر کی جانے والی تنقید کا بھی ایک جواب ہے۔

لیہ میں مودی کا خطاب نہ صرف جون کے وسط میں اُن کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات کی نفی ہے بلکہ بنیادی حقائق  سے بھی واضح انحراف ہے۔دوسری جانب چاہے چین کے عسکری ذرائع ہوں یا سفارتی ذرائع  ، چین نے متعدد مواقعوں پر وادی گیلوان کے واقعے کے حوالے سے حقائق سے آگاہ کیا ہے ۔ہم کیوں نہ اس واقعے کی  ٹائم لائن کا ایک جائزہ لیں؟

رواں سال اپریل میں بھارتی دفاعی فوج نے وادی گیلوان میں سڑک اور پل سمیت دیگر  بنیادی تنصیبات کی تعمیر شروع کی۔چین کی جانب سے مخالفت اور تشویش کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت مسلسل طور پر اشتعال انگیز کارروائیوں میں مصروف رہا۔

چھ مئی کو بھارتی دفاعی فوج نے سرحد پار کرتے ہوئے چین کی سرزمین پر  قدم رکھا اور چینی دفاعی فوج کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکا گیا۔بھارت نے یک طرفہ طور پر سرحدی کنٹرول کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔چین نے جواب میں لازمی اقدامات کیے۔

چھ جون کو چین اور بھارت کے درمیان عسکری کمانڈرز  کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں سرحدی علاقے کی صورتحال کو معمول پر واپس لانے پر اتفاق کیا گیا۔

تاہم، پندرہ جون کو بھارت نے اتفاق رائے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  ایک بار پھر سرحد پار کرتے ہوئے اشتعال  انگیز کارروائی کی اور چینی سپاہ پر حملہ کیاجس کے بعد شدید جسمانی تصادم میں جانی نقصان ہوا۔

سترہ جون کو چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے ٹیلی فون پر صورتحال کو  معمول پرواپس لانے اور خطے میں امن و استحکام کے تحفظ  پر اتفاق کیا۔

کسی بھی تنازعے کے بعد چین ہمیشہ کی طرح سرحدی علاقے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کا خواہشمند رہا ہے۔تاہم ، بھارت  تنازعات  کی ذمہ داری  چین پر عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ چین نے یک طرفہ طور پر سرحدی علاقے کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ  حقائق کے برعکس گمراہ کن اور بے بنیاد بیانیہ ہے ۔اس بیان  کے بعد مودی نے انیس جون کو ملکی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں کہا کہ چین تو  ہماری سرزمین میں داخل ہی نہیں ہوا   اور نہ ہی کسی چوکی پر قبضہ کیا گیا ہے۔ہمارے بیس سپاہی ہلاک ہوئے ہیں۔مودی کی باتوں سے حقیقت بھی واضح ہو گئی اور  چینی وزارت خارجہ کے بیانات کی بھی تائید ہو گئی۔اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بھارتی وزارت خارجہ جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔

ابھی حالیہ اطلاعات کے مطابق  تیس جون کو  چین ۔بھارت عسکری کمانڈرز کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے پر اتفاق  کیا گیا ہے۔ تاہم  تین جولائی کو مودی کے خطاب کے باعث  سرحدی صورتحال ایک مرتبہ پھر تناو کا شکار ہے ۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان  چاو  لی جیان نے مودی کے دورے سے متعلق کہا کہ  اس وقت چین اور بھارت  عسکری اور سفارتی ذرائع سے موجودہ تناو کی صورتحال کو  معمول پر واپس لانے کے لیے بات  چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں کسی بھی فریق کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے سرحدی صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے۔

 بھارت میں چینی سفارت خانے کے ترجمان جی رونگ نے تین تاریخ کی شام کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین نے  پرامن مذاکرات کے ذریعے چودہ ہمسایہ ممالک میں سے بارہ ممالک کے ساتھ سرحد ی امور پر اتفاق رائے برقرار رکھا ہے۔ زمینی سرحد چین اور ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستانہ تعاون کی ایک پٹی بن چکی ہے۔چین کو "توسیع پسند" سمجھنا  اور ہمسایہ ممالک کے درمیان  موجودہ تنازعات سے متعلق مبالغہ آرائی بالکل بے بنیاد ہے۔

مودی کے خطاب کی روشنی میں  توسیع پسندی کا پیروکار کون ہے؟ کون یک طرفہ طور پر سرحدی کنٹرول کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتا ہے؟ کس نے  چینی سرزمین میں داخل ہو کر چینی سپاہ پر حملہ  کیا ہے ؟ کون مسلسل اشتعال انگیز کارروائیوں کے ذریعے چین کے ساتھ ساتھ  پاکستان اور نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازعات کو  سنگین بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ؟ جواب بالکل صاف اور واضح ہے۔


شیئر

Related stories