امریکہ کی ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی ناصرف امریکہ کے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی نقصان دہ ہے
چھ جولائی کو امریکہ نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو مطلع کیا ہے کہ وہ اگلے سال جولائی میں عالمی ادارہ صحت سے علیحدہ ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او میں امریکہ کی شرکت کے وقت طے شدہ شرائط کے مطابق امریکہ ایک سال قبل درخواست پیش کرکے اور اپنی مالی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او سے باضابطہ طورپر علیحدہ ہوسکتا ہے۔ اور اس وقت امریکہ پر عالمی ادارہ صحت کے بیس کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ رقم واجب الادا ہے ۔
بہت سے ممالک کے ماہرین اور سیاستدانوں نے ٹرمپ حکومت کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کا یہ اقدام غیر دانش مندانہ ہے ۔ یہ نا صرف عالمی طور پر وبا کی روک تھام کے لیے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کو کمزور کرے گا بلکہ امریکہ کے اندر بھی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے نقصان دہ ہے۔امریکہ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہا ہے ۔
سات جولائی کو امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے نائب چیئرمین رابرٹ مینینڈیز نے کہا کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے نہ تو امریکی عوام کی جانوں کا تحفظ ہوگا اور نہ ہی ملک کے مفادات کا تحفظ ہوگا بلکہ یہ امریکی عوام کو مزید بیماری کا اور خود امریکہ کو مزید تنہائی کا شکار کرے گا ۔ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن ایرک سویول نے سات تاریخ کو سوشل میڈیا پر بیان دیا کہ امریکہ کا ڈبلیو ایچ او سے دستبرداری کا فیصلہ غیر ذمہ دارانہ اورمکمل طور پر سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ فیصلے سے امریکی مشکل کا شکار ہوں گے۔
اقوام متحدہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن اور سی ای او الزبتھ کزنز نے کہاکہ "ڈبلیو ایچ او سے ٹرمپ انتظامیہ کی باضابطہ علیحدگی غیرضروری اور بے حد خطرناک ہے۔" جبکہ روس کے خیال میں امریکہ کے اس اقدام نے عالمی صحت کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون کی اساس کو نقصان پہنچایا ہے ۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکی حکومت کی ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کی اصل وجہ وبا کی روک تھام و کنٹرول میں ناکامی کی ذمہ داری کو دوسروں پر عائد کرنا ہے ۔ رواں سال انتخابات ہیں اور صدر ٹرمپ کو ووڈ-۱۹ کے مقابلے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لئے ٹرمپ نے بارہا چین کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور اس میں نا کام ہونے کے بعد انہوں نے اپنا رخ عالمی ادارہ صحت کی طرف موڑ لیا تاکہ ملک میں وبا کی تشویشناک صورتِ حال کی ذمہ داری ان پر نہ ڈالی جائے ۔
اس وقت وبا بدستور پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ۔ مریضوں کو بچانا اولین ترجیح ہے ، اور انسداد وبا کےلیے تعاون کو فروغ دینا تمام ممالک کا مشترکہ فریضہ ہے۔ لوگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ
امریکی انتظامیہ کو چاہے ان بین الاقوامی اصولوں اورنظم و نسق کو مجروح کرنا پڑے جو تمام ممالک کے لوگوں کی صحت و بہبود کے لیے موزوں ہیں، وہ کرے گا ۔مگروہ یہ نہیں چاہتا کہ اپنے ملک میں انسداد وبا کی اپنی ذمہ داری نبھائے ۔اور ایسے میں تو یہ بالکل ہی ناممکن ہے کہ امریکہ اس وبا پر قابو پانے کےدوران بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی ذمہ داری سنبھالے ۔ لیکن آج کی دنیا میں کوئی ملک تنہا نہیں رہ سکتا ۔ عالمی انسداد وبا کے تعاون کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی عمل سے خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچے گا ۔