ایسے وقت میں کہ جب اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے امریکہ محاذ آرائی کو کیوں ہوا دے رہا ہے ؟ شعبہ اردو کا تبصرہ
چھ اگست کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نےاپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے کینیڈا کی ایلومینیم مصنوعات پر دوبارہ سے دس فیصد کے اضافی محصولات عائد کیے جانے کے بعد کینیڈا جوابی اقدامات اختیار کرے گا اور امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کیے جائیں گے۔امریکی صدر ٹرمپ نے چھ تاریخ کو اعلان کیا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے چھ اگست سے کینیڈا سے درآمد کی جانے والی ایلومینیم مصنوعات پر دس فیصد کے اضافی محصولات دوبارہ عائد کیے جائیں گے۔
آج کل امریکہ کی جانب سے آئے روز اس قسم کے قصے سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔امریکہ نے "قومی سلامتی"کے بہانے ، چینی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالا ہوا ہے اور اس دفعہ کینیڈا کے لیے بھی وہی "قومی سلامتی"کا بہانہ بنایا گیا ہے۔اس وقت پوری دنیا کے عوام کووڈ-۱۹ کے باعث سنگین خطرے سے دو چار ہیں اور ایسے میں تمام ممالک خاص طور پر بڑے ممالک کی جانب سے ذمہ داری نبھانے کی اشد ضرورت ہے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف ممالک وبا پر قابو پانے کے لیے متحد ہو رہے ہیں اورتجربات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔سائنسدان ویکسین کی تحقیقات اور تعاون میں بھی مصروف ہیں۔ لیکن جب ہم امریکہ کی طرف دیکھیں ، تو اس ملک میں بعض سیاستدان وبا کے خلاف اقدامات اختیار کرنے کی بجائے عالمی سطح پر محاذ آرائی پیدا کر رہے ہیں۔
انسداد وبا کے حوالےسے وہ عالمی ادارہ صحت جیسے مقتدر ادارے پر الزامات لگانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں ،طبی ماہرین اور سائنسدانوں کی باتیں ماننے کی بجائے وائرس سے متعلق نا معقول قسم کی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ اگر ذرائع ابلاغ حقائق بتاتے ہیں تو اسے " جھوٹی خبر "قرار دے دیا جاتا ہے۔ عالمی طبی ماہرین نے ماسک لگانے کی تجویز دی ہے ،لیکن بعض امریکی سیاستدانوں کی نظر میں ماسک لگانے کے پیچھے بھی سیاسی مقاصد ہیں۔سائنسدانوں نے وبا کی سنگینی کے پیشِ نظر اقتصادی بحالی کی رفتار کو قدرے آہستہ رکھنے کی تجویز دی ہے ، لیکن ان سیاستدانوں نے کبھی بھی ان کی رائے قبول نہیں کی۔ جیسا کہ حالیہ دنوں سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ امریکی صدر اب بھی وبا کی شدت اور صورتِ حال کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔
ایک طرف امریکی سیاستدان ہیں جو امریکی عوام کی زندگیوں کے حوالے سے لاپرواہی برت رہے ہیں تو دوسری طرف وہ دنیا بھر میں جگہ جگہ محاذ آرائی کی صورتِ حال کو ہوا دے رہے ہیں ۔کینیڈا کی مصنوعات پر اضافی محصولات، چین کے ساتھ تجارتی تنازعات ،جرمنی کے ساتھ نارڈاسٹریم-۲ منصوبے اور امریکی فوجی انخلا،وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں ۔چین کے حوالے سے پہلے تو امریکہ نے تجارتی تنازعات پیدا کیے ،پھر حالیہ دنوں بعض سیاستدانوں نے نظریاتی تنازعات پر مبنی "سرد جنگ"چھیڑنے کی کوشش بھی کی۔دنیا کے دو بڑے ممالک کی حیثیت سے اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان تعاون اشد ضروری ہے ۔لیکن امریکہ نہ صرف چین کے ساتھ بلکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھی محاذ آرائی پیدا کر رہا ہے۔ اس سب سے کس کو فائدہ حاصل ہوگا؟ امریکی عوام کو ہر گز اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو پھر اس سے صرف انتخابات کی دوڑ اور سیاسی کھیل میں مصروف سیاستدانوں کو فائدہ پہنچے گا۔
لیکن امریکی سیاستدانوں کی اس چال کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ہم نے دیکھا کہ کینیڈا امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات اختیار کر رہا ہے ۔حال ہی میں جرمن چانسلر نے بھی کہاہے کہ جرمنی کو امریکہ کے ساتھ تعلقات پر ازسرِ نو غور کرنا پڑے گا۔حال ہی میں جرمنی کے ماہرِ امریکی امورِ میشائیل ہوگش ویندر نے چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یورپی ممالک کو خود کو متحد اور مضبوط بنانا چاہیئے اور یورپ کے اقتدار اعلی میں امریکہ کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکی طرز عمل کی حمایت کرنے والے بہت کم ہیں۔ اس لیے امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں محاذ آرائی پیدا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔