دنیا کے ایک بہتر مشترکہ مستقبل کی خاطر ، امریکی سیاستدانوں کو تفریق پیدا کرنے کی بجائے انسدادو با میں کردار ادا کرنا چاہیے ،شعبہ اردو کا تبصرہ

2020-08-10 13:51:26
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

"انتہائی دکھ کے ساتھ ،میں وٹنی ریڈیک کی فوتگی کا اعلان کرتی ہوں۔وہ سات اگست دوہزار بیس کوفلوریڈا کے ایک ہسپتال کے وینٹی لینٹر پر ہمیں تنہا چھوڑ گئیں۔" یہ اعلان فوتگی وٹنی ریڈیک نامی ایک امریکی استانی کا خود اپنے لیے تحریر کردہ ہے۔امریکہ میں حالیہ دنوں موسم خزاں میں جلد بازی میں کلاسوں کے دوبارہ آغاز کے خلاف بے شمار اساتذہ نے بطور احتجاج یہی طریقہ اختیار کیا ہے اور اسکول کے آغاز سے قبل ہی اپنے "اعلان فوتگی "تحریر کیے ہیں ۔

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق نو اگست تک امریکہ میں کووڈ-۱۹ کے مصدقہ کیسز کی کل تعداد پچاس لاکھ سے زائد ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر چھیاسٹھ امریکیوں میں ایک کووڈ-۱۹ سے متاثر ہے۔ اموات کی تعداد ایک لاکھ باسٹھ ہزار سے زائد ہے جو دنیا بھر میں مجموعی کیسوں کا بائیس اعشاریہ چار فیصد ہے۔لیکن دوسری جانب امریکہ کی کل آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف چار فیصد ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق ،امریکہ میں کیسز کی تعداد چالیس لاکھ سے پچاس لاکھ تک بڑھنے میں صرف سترہ دن لگے۔

وبا کی اس قدر سنگین صورتحال کی براہ راست ذمہ داری امریکی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ایک جانب انہوں نے وبا کی شدت کو مسترد کرتے ہوئے اسے "سازش"قرار دیا۔دوسری جانب وہ ملکی سطح پر اپنی حریف جماعتوں، بیرونی سطح پر دوسرے ممالک ،ڈبلیو ایچ او نیز سائنسدانوں پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔مزید یہ کہ انسداد وبا کی سنگین صورتحال میں بھی بعض امریکی سیاستدان زندگیاں بچانے کی بجائے دنیا بھر میں تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے جن امور کو اولیت دینی چاہیے ،امریکی سیاستدان اپنے سیاسی مفادات پر غور کرنے کے بعد ہی اس بارے میں سوچتے ہیں۔ اسی لیے شدید وبائی صورتحال کے باوجود امریکی حکومت نے دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے بار بار اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی سختی سے تاکید کی۔اسی باعث امریکی اساتذہ نے بطور احتجاج اپنے اعلان فوتگی تحریر کیے۔دنیا میں وبائی صورتحال پر قابو پانے کے لیے جو کام کرنے چاہیے ، وہ سب اپنے ذاتی مفادات پر غور کرنے کے بعد سوچتے ہیں۔ ملک میں مصدقہ کیسز پچاس لاکھ سے متجاوز ہونے کے باوجود امریکی حکومت نے بین الاقوامی سیاحت سے متعلق امریکی شہریوں کے لیے اپنائے گئےانسدادی اقدامات کو بھی حال ہی میں اٹھانے کا فیصلہ کیاہے۔ امریکہ میں وبائی صورتحال پر مکمل قابو پانے سے قبل اس طرز کے اقدامات کسی بھی اعتبار سے ایک ذمہ دار ملک کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

اعلیٰ امریکی قیادت سمیت کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس شائد اتنا سنگین نہیں ہے کیونکہ بیشتر مریض خود بخود صحت یاب ہو جاتے ہیں۔لیکن بچے اور بزرگوں سمیت کمزور مدافعتی صلاحیت رکھنے والے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔بچوں کے امراض کے حوالے سے امریکی اکیڈمی کی ایک رپورٹ کے مطابق ،کووڈ-۱۹ سے متاثر ہونے والے امریکیوں میں تین لاکھ اڑتیس ہزار بچے بھی شامل ہیں۔صرف جولائی کے مہینے میں ہی کم از کم پچیس بچے کووڈ-۱۹ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔جب کہ بزرگوں کی صورتحال مزید تشویشناک ہے۔نیویارک ٹائمز کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیس جولائی تک امریکہ میں کووڈ-۱۹ کے باعث اکتالیس فیصد اموات کا تعلق نگہداشتی اداروں سے ہے، جن میں متاثرہ مریض اور اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے۔

ابھی تو شائد ہم جوان ہیں ۔لیکن ہمارے بھی بچے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ عمر ڈھلتی جائے گی۔بچے ہمارے مستقبل کی امیدیں ہیں اور بزرگی ہماراکل ہے۔ اپنے بچوں کے لیے ، اپنے بزرگوں اور پوری انسانیت کے مستقبل کےلیے ،وبا کے سامنے دنیا بھر کے تمام ممالک ،تمام عوام کو متحد ہونا چاہیئے۔ امریکی سیاستدان اس وبائی صورتحال میں بھی اگر اپنے ذاتی مفادات کو عزیز رکھتے ہیں ،تو ایسے رویے انسانیت کے لیے تباہ کن ہیں ۔جس طرح امریکی مورخ جیمز گروسمین نے حال ہی میں کہا ہے کہ مستقبل کے مورخین موجودہ امریکی حکومت کے باعث سماج میں پائی جانے والی تفریق کیلئے اس حکومت کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔


شیئر

Related stories