ویکسین کا اشتراک اور وبا کے خلاف عالمی تعاون ، چین کا پختہ عزم : سی آر آئی اردو کا تبصرہ
دنیا بھر میں کووڈ -۱۹ کی وبا بدستور آگ کی طرح پھیل رہی ہے ، ویکسین وبا پر قابو پانے کا بہترین حل قرار دی جا رہی ہے ۔ لہذا مختلف ممالک نے ویکسین پرتحقیقات اور اس کی تیاری کو خصوصی اہمیت دی ہوئی ہےاور پوری دنیا کے باصلاحیت ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ویکسین کے حوالےسے تحقیق و تیاری میں مصروف ہیں ۔ چین میں سائنسدانوں نے دن رات محنت کی ہے اور ویکسین پر کی جانے والی تحقیقات میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے ۔
چین نے ویکسین کی تقسیم اور استعمال کے سلسلے میں جو واضح رویہ رکھا ہے، عالمی برادری نے اسے خوش آئند کہا ہے ۔ چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے اٹھارہ مئی کو منعقدہ صحت کی عالمی کانفرنس کے ویڈیو اجلاس کی افتتاحی تقریب میں پہلی بار اعلان کیا کہ چین کی تیار کردہ ویکسین عالمی سطح پرعوامی استعمال کی شے کے طور پر پیش کی جائے گی ۔ اس کے بعد شی جن پھنگ نے مختلف مواقع پر اور دوسرے ممالک کے رہنماوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران ویکسین پر تحقیقات ،اس کی تیاری و استعمال کے سلسلے میں چین کے مستقل موقف اور عالمی برادری کے ساتھ چین کے خاطر خواہ تعاون کا اظہار کیا۔
لیکن، ایسے وقت میں جب دنیا کو تعاون کی ضرورت ہےتو امریکہ کیا کر رہا ہے ؟ امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بار بھر واضح کیا کہ امریکہ، عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ویکسین تیار کرنے اور تقسیم کرنے والی کسی عالمی تنظیم کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ امریکہ عالمی ادارہ صحت سمیت کثیرالجہت تنظیموں کی پابند یاں نہیں ماننا چاہتا ہے۔ اس سے قبل امریکی حکومت عالمی ویکسین سمٹ سے غیر حاضر تھی ، ویکسین کے لیے اپنی ترجیح ،حتی کہ خصوصی حقوق کی تلاش کرتی رہی ۔ امریکہ کی " ویکسین انا پرستی " کی پالیسی دنیا بھر کے لوگوں کو شدید نقصان پہنچائے گی ۔
سب جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت امریکہ میں وبائی صورتِ حال سب سے زیادہ سنگین ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام ویکسین کے حوالے سے تحقیقات اور تیاری کے منصوبوں میں امریکہ کے شرکت نہ کرنے سے اس سلسلے میں عالمی تعاون کو نقصان پہنچے گا ۔ جیسا کہ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی رکن ایمی بیلا ک کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کےان تحقیقاتی منصوبوں میں امریکہ کی غیر حاضری ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ، کوتاہ نظری کے باعث کیا گیا فیصلہ ہے جو اس وبا سے عالمی لڑنے کی کوششوں میں رکاوٹ بنے گا ۔
وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ انسان کے مشترکہ "دشمن" کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کو آنکھیں بند کرکے سائنسی معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ زیادہ خود اعتمادی یا تکبر امریکی عوام اور دنیا کے لوگوں کے لیے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔
تمام ممالک توقع کر رہے ہیں کہ ویکسین اس انسانی تباہی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس وجہ سے ، عالمی برادری کو انفرادی طور پر مقابلہ کرنی کی بجائے تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے اور وسائل پر اجارہ داری سے گریز کرنا چاہیے ۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے 170 سے زائد ممالک نے ڈبلیو ایچ او کی زیرقیادت نوول کورونا وائرس کے ویکسین منصوبے میں حصہ لینے کا کہا ہے ۔ چین کی بھر پور کوشش اور واضح موقف سے چین کے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ چین دنیا کے ساتھ مل کر وبا کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے لیے بھر پور کوششیں جاری رکھے گا ۔