ویکسین کی تیاری کے عالمی اشتراک میں چین کی شرکت نے اس کےتعمیری کردار پر مہر ثبت کردی ہے ۔ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

2020-10-12 14:52:24
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

COVAX ، کوکوڈ -۱۹ کے ٹیسٹ ، علاج ، نئی ویکسینز کی ترقی ، تیاری، تکمیل اور مساوی تقسیم کو تیز کرنے کے لیے عالمی سطح پرکیا جانے والا باہمی تعاون ہے۔ اس کے تحت زیادہ سے زیادہ ممالک اس مشترکہ "حوض" میں اپنے تجربات ، تحقیق اور نتائج دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں تاکہ اس مرض کے خلاف ویکسین کی تیاری میں تیزی آئے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر موثر اورمحفوظ علاج بھی دریافت جا سکے ۔اس کی ترجیح یہ ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ویکسین کے حصول میں مدد فراہم کرے اور2021 کےاختتام تک تحقیق اور ترقی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے ممالک کے لیے ویکسین کی کم از کم دو ارب خوراکیں فراہم کی جائیں ۔

یہ تھا covax کا پس منظر اب اس حوالے سے اگر ہم چین کے کردار کو دیکھیں تو چین ویکسین پر کی جانے والی تحقیق اور تیاری کے حوالے سے سرِ فہرست ہے ۔ اس وقت دنیا میں نو ویکسینز کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں ہیں جن میں سے چار چین کی ہیں جب کہ پانچ امریکہ ، جرمنی ، روس اور برطانیہ کی ہیں۔ یہاں قابلِ ذکر بات محض ویکسینز کی تعداد کی نہیں بلکہ قابلِ ذکر اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ چین پہلے دن سے اس عہد کے ساتھ ویکسین کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ مالی مفادات سے بالا تر ہو کر انسانیت کےناتے ، ویکسین کو عام استعمال کے لیے آسانی سے خریدی جانے والی اشیا کے تحت عالمی مارکیٹ میں متعارف کروائے گا اور کئی فورمز پر وہ اپنے اس ارادے کا اظہار کر چکا ہے کہ چین کی پہلی ترجیح ترقی پذیر ممالک اور وہ ممالک ہوں گے کہ جہاں کے عوام کی قوتِ خرید بے حد کم ہے اور ان کے لیے اسے کم قیمت پر فراہم کیا جائے گا ۔ چین کی نیک نیتی اور انسانیت کی فلاح کا یہ جذبہ عالمی طور پر سراہا گیا۔

ایسے میں جب ناصرف یہ کہ چین اور کوایکس کا ہدف ایک ہی ہے بلکہ چین ایک بڑی معیشت بھی ہے جو مالی طور پر بھی کوایکس کو مضبوط بنانے کے لیے پر عزم ہے ، چین کا باضابطہ طور پر کو ایکس کے ساتھ تحقیق و تیاری کے عمل کا حصہ بننا بے حد خوش آئند اور حوصلہ افزا ثابت ہوا ۔ کیونکہ تحقیق کے میدان میں بھی چین مسلسل اپنے تجربات و نتائج بانٹتا چلا آرہا ہے اور اب ویکسین کی تیاری میں سرِ فہرست ملک اس عالمی اتحاد میں شامل ہوکر اس کو ایک نئی قوت بخش رہاہے ۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی بے حد مثبت تبصرے کیے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ایسے وقت میں کہ جب دنیا کو ایک مضبوط رہنما کی ضرورت ہے تو " نمبر ون ملک" کہاں ہے ؟ تعمیری کردار ادا کرنے کا وقت آیا تو امریکہ منظر نامے سے بالکل غائب ہے۔ ہاں البتہ ویکیسن کی تیاری میں رکاوٹ ڈالنے ، الزام تراشی کر کے حقائق کو مسخ کرنے ، ابہام اور بے یقینی پیداکرنے کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر امریکی حکومتی اہلکار بے حد فعال ہیں ۔ کیا " بڑا ملک" اس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ ایک بڑے ملک کی ذمہ داری " تعمیر " ہوتی ہے نہ کہ " تخریب" ، کیا یہ نام نہاد " طاقتورملک" اس بات کا احساس رکھتا ہے کہ اس وقت اتحاد اور تعاون ہی انسان کی بقا کا واحد اور موثر عمل ہے؟

برطانوی اخبار "گارجین"کا کہنا ہے کہ چین کی اس منصوبے میں شمولیت وبا سے لڑنے کے لیے عالمی یکجہتی میں اعتماد کا باعث ہے ، جس سے چین کا عالمی تشخص مزید بلند ہوا ہے۔ چین "ویکسین نیشنلزم" کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی معیشت ہے

واشنگٹن پوسٹ نے چین کے کردار کی تعریف کرتےہوئے کہا کہ چین میں کووڈ-۱۹ پھیلنے کے بعد ، حکومت نے نا صرف اندرون ملک وائرس کے پھیلاؤ پر فوری طور پر قابو پایا ، بلکہ بیرون ملک ماسک ، طبی ساز وسامان اور دیگر سامان عطیہ کیا جس سےعالمی سطح پر چین کی ساکھ مزید بہتر ہوئی ہے۔ اب کوایکس میں چین کی شمولیت اس کے "وبا کے خلاف متحد" ہونے کے عزم کاعملی ثبوت ہے

بلومبرگ نیوز کے مطابق چین کا یہ رویہ بے حد مثبت ہے کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی سربراہی میں "نوول کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے عملی منصوبہ" میں حصہ لے گا۔ چین کی شراکت داری نے امریکی حکومت کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کی قیادت میں پائے جانے والے خلا کو پر کیا ہے ۔

بڑے سیانے کہتے ہیں کہ نیت صاف رکھو بد خواہ خود ہی منہ کہ کھائیں گے ، تو چین کی نیک نیتی کا پھل نیک نامی کی صورت میں اس کومل رہاہے ۔ ناصرف چین اس مرض کے خلاف اپنے ملک میں فتح یاب ہوا ، دوسرے ممالک کی ہر طرح سے مدد کرتے ہوئے ان کے قریب ہوا بلکہ حالیہ پیش رفت نے بدخواہوں کی اصلیت بھی عیاں کر دی جو صرف اور صرف الزام تراشی اور بد خواہی میں مصروف رہے اور نہ تو اپنے ملک کے عوام کو اس مرض سے بچانے کے لیے کوئی بڑا فیصلہ کر سکے نہ ہی عالمی تعاون میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور چین کا یہ طرزِ عمل اس کو ناصرف عالمی رہنما " ثابت کرتا ہے بلکہ ایک ہم نصیب انسانی معاشرے کے قیام کی اہمیت اور افادیت کو بھی واضح کرتا ہے ۔


شیئر

Related stories