انسانی حقوق کے تحفظ میں چین کا مثالی کردار ،سی آر آئی اردو کا تبصرہ
انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کی جائے تو اس میں بڑے ممالک بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے کردار کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے ۔ دنیا یہ توقع بھی کرتی ہے کہ چین اور امریکہ جیسے ذمہ دار ممالک نہ صرف اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ ابھی حال ہی میں اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے جس میں اقوام متحدہ کی 75ویں جنرل اسمبلی کے دوران رائے شماری کے ذریعے چین کو 2021تا 2023کی مدت کے لیے انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔چین اس سے قبل بھی چار مرتبہ انسانی حقوق کونسل کا رکن رہ چکا ہے اور اقوام متحدہ کی منشور کی روشنی میں نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کیا ہے بلکہ کثیر الجہتی کو آگے بڑھانے میں بھی دنیا چین کے کردار کی معترف ہے۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک اور امریکہ کے بعد دوسری بڑی معیشت کے اعتبار سےچین نے ہمیشہ انسانی حقوق کو نمایاں ترجیح دی ہے اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے تحت انسانی حقوق کی ترقی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ عوامی خوشحالی اور عوام کو فوقیت دینے کی پالیسی ہمیشہ سے چین کا خاصہ رہا ہے۔چین سمجھتا ہے کہ ایک خوشحال زندگی بسر کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے چین میں گزرتے وقت کے ساتھ لوگوں کے معیار زندگی میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔خوشحال زندگی کی جستجو میں تعلیم ،صحت ،رہائش اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔اس کی عکاسی حالیہ دنوں کووڈ۔19 کی صورتحال سے بھی ہو سکتی ہے جس میں چین نے عوام کے تحفظ کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے لازمی اقدامات اٹھائے اور معاشی نقصان کی بھاری قیمت پر اپنے عوام کی زندگیوں کا تحفظ کیا۔اس کے برعکس دنیا کے کئی ممالک میں سنگین وبائی صورتحال میں بھی معیشت کو فوقیت دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عجلت میں اقتصادی سماجی سرگرمیوں کی بحالی سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو داو پر لگا دیا گیا۔چین نے عوام کے بہترین مفاد میں دنیا کو انسداد وبا اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں میں ہم آہنگی کا ایک بہترین فارمولا فراہم کیا جسے عالمی سطح پر بھرپور سراہا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی ترقی کی بات کی جائے تو چین نے اپنے عوام کو خوراک کے تحفظ ،غربت سے نجات ، معیار زندگی میں مسلسل بہتری ، شفاف پانی کی دستیابی ، بنیادی سہولیات سے آراستہ رہائش ، جدید نقل و حمل کے ذرائع ،صحت عامہ کی بہتری ، سماجی امداد سمیت اطلاعات و مواصلات کی بہترین سہولیات کی ضمانت دی ہے۔چین رواں برس غربت کے مکمل خاتمے سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تکمیل کے انتہائی قریب ہے جبکہ اس سفر کے دوران گزشتہ چالیس برسوں میں اسی کروڑ سے زائد افراد کو غربت کی لکیرسے باہر نکالا گیا ہے ،جسے دنیا ایک معجزاتی کامیابی قرار دیتی ہے۔چین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے عوام کے معاشی ،سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور ماحولیاتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔عوام کو روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کو لازمی اہمیت دی گئی ہے ، دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی فلاح کے لیے "سوشل سیکیورٹی" کا جامع نظام وضع کیا گیا ہے ،یکساں تعلیم کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہےجبکہ ملک میں بسنے والی تمام چھپن قومیتوں کے ثقافتی حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ چین بھر میں بسنے والے تمام افراد کی مذہبی آزادی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔عوام کے بہترین مفاد میں ماحول کے تحفظ کی خاطر گرین ترقی اور گرین صنعتوں کے تصورات ابھر کر سامنے آئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ چین فطرت اور ترقی میں ہم آہنگی کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔
حقائق واضح کرتے ہیں کہ چین ملک میں اقلیتی گروہوں ،خواتین ،بچوں ،بزرگ افراد ،جسمانی معذوری کے شکار افراد سمیت تمام طبقوں کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے اور انسانی حقوق کونسل کے رکن کی حیثیت سے چین دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی اپنے کامیاب تجربات کاتبادلہ کر سکے گا جس سے انسانی حقوق کے شعبے میں تعاون کو فروغ ملے گا۔