چین کے قومی تقاضے اور دستوری ترمیم
تحریر : شاہد افراز خان
قارئین چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بہار کی آمد آمد ہے اور بہار تو خوشبو ، خوبصورتی ، مسرت اور قدرت کی رنگینی کا مظہر ہے۔بہار کا یہ دلکش موسم چینی شہریوں کے لیے بھی کئی خوشخبریاں لے کر آیا ہے۔چین کی اہم ترین سیاسی سرگرمیاں چین کی قومی عوامی کانگریس اور چین کی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے سالانہ اجلاس اب اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور کئی تاریخی فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔
چین کی قومی عوامی کانگریس نے رواں اجلاس کے دوران ایک تاریخ ساز دستوری ترمیم کی منظوری دی ہے جسے عالمی سطح پر انتہائی اہمیت دی گئی ہے جبکہ مختلف حلقوں کی جانب سے بھی دستوری ترمیم کو چین میں جاری ترقیاتی عمل اور پالیسیوں کے تسلسل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔اگر چین میں دستور سازی کا ایک مختصر سے جائزہ لیا جائے تو عوامی جمہوریہ چین کا پہلا دستور انیس سو چون کو نافذ العمل ہوا جبکہ موجودہ آئین پر انیس سو بیاسی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔انیس سو بیاسی کے بعد آئین میں اب تک پانچ مرتبہ ترمیم کی گئی ہے جس میں انیس سو اٹھاسی ،انیس سو ترانوے ، انیس سو ننانوے ، دو ہزار چار اور اب دو ہزار اٹھارہ میں ترامیم شامل ہیں ۔اس حوالے سے سب سے اہم بات سمجھنے کی یہی ہے کہ چین نے ہمیشہ اپنے قومی تقاضوں کے مطابق دستوری ترمیم کی ہے اور کبھی بھی کسی فرد واحد یا سیاسی مقاصد کے لیے دستور میں ترمیم نہیں کی گئی ہے۔
اب اگر موجودہ آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کن مقاصد کے تحت آئینی ترمیم کی گئی ہے۔ جب ہم عالمی ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں تو جس نقطے کو سب سے زیادہ توجہ حاصل رہی وہ چین کے دستور میں صدر کے عہدے کی میعاد کے حوالے سے پابندی کی شق کا خاتمہ رہا۔قارئین اس ترمیم کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ چین میں قیادت کے نظام میں بہتری لائی جائے ۔ ترقی پزیر ممالک میں ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب قیادت تبدیل ہوتی ہے تو ترجیحات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پالیسیوں کے تسلسل کے حوالے سے بھی مسائل سامنے آتے ہیں ۔ چین اس وقت ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے ، چین کا عالمی اثر و رسوخ فروغ پا رہا ہے ، چین معیشت ، تعلیم ، زراعت ،سائنس ایند ٹیکنالوجی ، دفاع ، کھیل ، ثقافت ، پیداوار ، تخلیق ، جدت ، سائبر اسپیس ، ہوا بازی غرضیکہ ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہا ہے ۔ چین کی جانب سے مختلف ترقیاتی اہداف وضح کیے گئے ہیں جس کا مقصد واضح ہے کہ ہر اعتبار سے ایک جدید سوشلسٹ خوشحال ملک تشکیل دیا جائے۔چینی پالیسی سازوں نے دو ہزار پینتیس اور دو ہزار انچاس تک کے لیے مختلف ترقیاتی اہداف کا تعین کیا ہے۔ اس سارے عمل میں چینی قیادت کا ایک کلیدی کردار ہے جس نے پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے ، ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنا ہے اور حقیقی معنوں میں چین کو عروج کی جانب لے کر جانا ہے۔لہذا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین کی موجودہ منتخب قیادت ترقی کے عمل کو آگے لے جا سکے گی۔
اگر آئینی ترمیم کا مزید جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ چین اپنے سوشلزم سے وابستہ رہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ نئے عہد میں چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم چین کی ترقی کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے ۔ چین کی ایک منفرد خوبی جو اسے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ چین کبھی بھی مغربی ممالک میں اپنائے جانے والے سماجی اقتصادی ترقیاتی نظام سے مرعوب نہیں ہوا ہے بلکہ ہمیشہ چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم پر کاربند رہا ہے۔ دوسرا ، چین نے کبھی بھی اپنا نظام دوسروں پر مسلط نہیں کیا ہے بلکہ چین ہمیشہ کہتا ہے کہ دنیا کے سبھی ممالک اپنی سماجی معاشی خصوصیات کی بناء پر کوئی بھی نظام اپنانے میں آزاد ہیں۔
یہ تو بات ہو گئی چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کی ، اب آتے ہیں کچھ اُن تصورات ، نظریات اور پالیسیوں کی جانب جنہیں ترمیم کے بعد دستور کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چین معیشت ، سیاست ، ثقافت ، سماج اور ماحولیاتی ترقی میں سب کے لیے جدید ، مربوط ، سرسبز اور کھلی ترقی کا داعی ہے اور اسے با قاعدہ اپنے آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ چین کی جانب سے ترقی کا ایک نیا نظریہ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایک مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کی تشکیل کی جائے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ترقی کے ثمرات دنیا کے سبھی ممالک تک یکساں منتقل ہوں اور کوئی بھی خطہ ترقی سے محروم نہ رہ جائے۔ لہذا چین نے اب اس نظریے کو مزید ترقی دینے اور موثر عمل درآمد کے لیےبا قاعدہ اسے آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔
اسی طرح چین کی بے مثال ترقی کا ایک اور نمایاں پہلو جو اِسے آج دنیا کی جدید طاقتوں سے الگ کرتا ہے وہ " پر امن ترقیاتی راہ " ہے۔ چین نے بناء کسی جنگ و جدل ، تنازعات اور تصادم کے تیز رفتار ترقی ہے جسے مغرب سمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور مختلف عالمی و علاقائی فورمز پر سراہتی بھی ہے۔چین چاہتا ہے کہ اب جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق پر امن ترقیاتی حکمت عملی کو آئینی ضمانت فراہم کی جائے۔
چین کے دستور میں تاریخی ترمیم کے حوالے سے ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اسے چین کی کمیونسٹ پارٹی اور چینی عوام دونوں کی حمایت حاصل ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ دستور میں ترمیم سے چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی عوام دونوں کے جذبات کی عکاسی ہوئی ہے جس سے ملک کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ایک آئینی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
چین کے آئین میں ترمیم کے مقاصد بالکل واضح ہیں کہ دستور کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جائے ۔ ایک ایسے وقت میں جب چین میں چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم نئے عہد میں داخل ہو چکا ہے یہ ضروری ہے کہ نئی کامیابیوں ، نئے تجربات ، نئےعوامی تقاضوں کو آئین کا حصہ بنایا جائے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو مزید مضبوط بناتے ہوئے چین کے عروج کا سفر جاری رکھا جائے۔