چین میں آئینی ترمیم کی صورت میں ترقی کے حوالے سے چین کے حقیقی مقام کے حصول کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کر دیا گیا ہے،ایس ایم حالی
چین میں آئینی ترمیم کی صورت میں ترقی کے حوالے سے چین کے حقیقی مقام کے حصول کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کر دیا گیا ہے،ایس ایم حالی
سلطان محمود حالی پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ہیں ، چین پاک تعلقات کے ماہر ہیں اور چین کے حوالے سے کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات میں باقاعدگی سے ہفتہ وار کالم نگاری کے علاوہ مقامی اور بین الاقوامی رسالوں میں ایس ایم حالی کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ایس ایم حالی کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز ملٹری عطا کیا ہے۔ سلطان محمود حالی کی چین کی قومی عوامی کانگریس کے سالانہ اجلاس کے حوالے سے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل سے خصوصی بات چیت
آئینی ترمیم کی اہمیت
میرے خیال میں چین کی قومی عوامی کانگریس کی جانب سے منظور کی جانے والی آئینی ترمیم کی اہمیت کی دو وجوہات ہیں۔ایک ، چین کے عوام ترقی پسند ہیں اور محنت سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لہذا آئینی ترمیم سے چینی افراد کی کاوشوں کی بدولت چین میں ترقی کا عمل مزید فروغ پائے گا۔ دوسرا ، آئینی ترمیم کے تحت ترقی کے جو واضح ثمرات ہیں نہ صرف ان کا اعادہ کیا گیا ہے بلکہ ترقی کے حوالے سے چین کا جو حقیقی مقام ہے اُس کے حصول کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کر دیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم کی بدولت نہ صرف چین بلکہ خطے کو بھی تقویت ملے گی۔
چین کا جمہوری نظام
میرے نزدیک مغرب میں قیادت کے حوالے سے جمہوریت کا جو تصور ہے وہ مغرب کے لیے تو شائد جامع اور موزوں ہو لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ مغربی حلقوں کی جانب سے تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے جمہوری نظام کو دیکھا جاتا ہے ، درحقیقت وہ چین کے نظام کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں۔میرے خیال میں چین نے جو جمہوری نظام اپنایا ہے وہ چینی عوام ، چینی سماج اور ملک کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ چین نے اپنے خصوصی انتظامی علاقوں اور صوبائی سطح پر لوگوں کو جو اختیارات دے رکھے ہیں اُس کی وجہ سے ایک خاص قسم کا جمہوری نظام قائم ہوا ہے اور موجودہ آئینی ترمیم میں بھی لوگوں کی انہی خواہشات کی عکاسی کی گئی ہے۔
چین کی ترقی میں قیادت کے نظام " تھری ان ون " کی اہمیت
میرے خیال میں چین میں قیادت کا نظام " تھری ان ون " چینی سماج ، چینی روایات اور چینی تہذیب و تمدن سے ہم آہنگ ہے اور ایک بات واضح ہے کہ چین اپنے نظام سے جڑے رہتے ہوئے ہی ترقی کر سکتا ہے نا کہ وہ دوسرے ممالک یا تہذیبوں سے خیالات مستعار لے۔صدر شی جن پھنگ کی رہنمائی میں چین کی موجودہ قیادت یہ چاہتی ہے کہ چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کو فروغ دیا جائے اور اِسی راہ پر گامزن رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کی جائیں۔
چین کاا شتراکی ترقی کا نظریہ
میں سمجھتا ہوں کہ چین ایک بہت ہی ذمہ دار معاشرے کو فروغ دے رہا ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کی یہ سیاسی فہم و فراست ہے جس کی بناء پر چین یہ چاہتا ہے کہ وہ خود تو ترقی کرئے لیکن دنیا بالخصوص اُس کے ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی خوشحالی آئے اور وہ بھی غربت ، افلاس ، ناخواندگی کا خاتمہ کر سکیں۔چین اشتراکی ترقی کی بات کرتا ہے اور دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ، برکس بنک اور ایشئن انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک جیسے اقدامات سے یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک بھی ترقی کے سفر میں چین کے ساتھ شامل ہو سکیں۔دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو جب پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو پوری دنیا اس سے استفادہ کرئے گی اور چین پاک اقتصادی راہداری کے تحت پاکستانی عوام بھی بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے کی بدولت چین ،پاکستان ، پورے خطے اور ساری دنیا کا مستقبل تابناک ہے۔
چینی خواب اور انسانیت کی مشترکہ خوشحالی
چین کی جانب سے انسانیت کے لیے ایک مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کو تشکیل دینے کی بات کی جاتی ہے ۔"چینی خواب" بھی صرف چین کی ترقی و خوشحالی سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ خواب بھی مشترکہ ترقی کا مظہر ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بھی واضح الفاظ میں کہا کہ دو بڑے ممالک کی حیثیت سےچین اور امریکہ کا یہ فریضہ ہے کہ ہم پوری انسانیت کو ساتھ لے کر چلیں اور جو غریب اور بے کس لوگ ہیں اُن کی امداد کریں۔صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی صدر کے خیالات کا خیر مقدم کیا گیا۔مجھے خوشی ہے کہ چینی صدر کے خیالات کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور چین ایک بڑے اور ذمہ دار جمہوری ملک کی حیثیت سے پوری دنیا کو ترقی کے سفر میں اپنے ساتھ لے کر چلے گا۔
قومی عوامی کانگریس تاریخی اہمیت
میرے نزدیک چین کی موجودہ قومی عوامی کانگریس تاریخی اہمیت کی حامل رہی جس میں نہ صرف چینی حکومت کی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تذکرہ کیا گیا بلکہ ایسے تاریخ ساز فیصلے کیے گئے جسے چینی مورخ سنہرے الفاظ میں لکھیں گے ۔