پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی باآو فورم میں شرکت کے دوران چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے خصوصی بات چیت
پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی باآو فورم میں شرکت کے دوران چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے خصوصی بات چیت
پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے باآو فورم میں شرکت کے دوران چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ایشیائی خطے سے لوگوں کی بڑی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ ایشیا کی افرادی قوت ایک بڑی طاقت ہے ۔ ایشیا کے لوگ محنتی ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں۔ایشیائی عوام میں ملک کی ترقی ، خوشحالی کے حوالے سے عزم پایا جاتا ہے۔ایشیائی ممالک بشمول پاکستان میں بھی بہترین طرز حکمرانی کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اِس کی بدولت ملک میں نئے منصوبہ جات آتے ہیں اور لوگوں کو مواقع ملتے ہیں۔بنیادی تنصیبات کے منصوبہ جات کی بدولت ایک جانب جہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں وہاں دوسری جانب عوام کا معیار زندگی بھی بہتر ہوتا ہےاور معاشی طور پر اُس علاقے میں خوشحالی آتی ہے۔
شوکت عزیز نے مزید کہا کہ زرائع آمد ورفت ، توانائی اور مواصلاتی شعبے کی بہتری سے دیگر دنیا کے ساتھ رابطہ سازی کو فروغ ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور عالمگیریت کا دور ہے جس میں بہتر رابطہ سازی کی بدولت اقتصادی ترقی اور ایک روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔لہذا ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوا جائے تاکہ ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
سابق پاکستانی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایشیا کا انیشیٹو ہے کیونکہ یہ چین کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔چین نے پہلے خود ترقی کی منازل طے کی اور اب چین ایک عظیم ملک بن چکا ہے۔"ہم نے دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو آگے لے کر جانا ہے۔پاکستان میں سی پیک کے تحت جو منصو بہ جات جاری ہیں اُن کی بدولت ملک میں مواصلاتی زرائع بہتر ہوں گے ، پانی کی فراہمی ہو گی ، بجلی میسر آئے گی۔یہ سب وہ عناصر ہیں جنہیں ترقی کے انجن کہا جاتا ہےجن کی بدولت غربت میں کمی آتی ہے"۔انہوں نے مزید کہا کہ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام خوشحال ہوں ، انہیں تعلیم ، صحت ، خوراک ، رہائش ، بہتر زرائع آمد و رفت میسر ہوں اور سب سے بڑھ کر عوام خود کو محفوظ تصور کریں۔ جب معیشت بہتر ہو گی تو سلامتی کی صورتحال بھی بہتر ہو گی کیونکہ جب لوگوں کو روزگار ملتا ہے تو وہ منفی معاشرتی رویوں سے باز رہتے ہیں۔"میری نظر میں یہ ایک خوش آئند انیشیٹو ہے اور ہمیں چینی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ایک عالمی انیشیٹو کو متعارف کروایا ہے"۔
ترقی کے عمل میں ایشیائی ممالک کو درپیش چیلنجز کا زکر کرتے ہوئے شوکت عزیز نے کہا کہ ایشیائی ممالک میں وسائل بالخصوص تیکنیکی ہنر مندی افرادی قوت کی عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں رابطہ سازی کی بہتری کے لیے اقدامات درکار ہیں ، جب رابطے بڑھتے ہیں تو افرادی وسائل کی استعداد کار میں اضافہ ہوتا ہے جس سے آمدنی کے زرائع میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
چین۔امریکہ تجارتی محاز آرائی کے حوالے سے شوکت عزیز نے کہا کہ وہ آزادانہ تجارت اور کھلی منڈیوں کے حامی ہیں۔آزادانہ تجارت کی راہ میں کسی قسم رکاوٹیں حائل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے عوام مستفید ہوتے ہیں۔"میرے خیال میں محصولاتی رکاوٹیں قائم کرنا دیرپا معاشی پالیسی نہیں ہو سکتی ہے ۔ ہر ملک کو اپنے حقوق کے تحفظ کا حق حاصل ہے مگر اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔تجارت سے ملک و معاشروں کی ترقی ہوئی ہے اور دنیا میں خوشحالی آئی ہے لہذا محصولات سے تجارت کی حوصلہ شکنی اور مصنوعی منڈی سے اپنی مقامی منڈیوں کا تحفظ ، اِس پالیسی کی بدولت دیرپا پائیدار ترقی ممکن نہیں ہو سکتی ہے ۔ محصولات میں اضافے سے اگر آپ اپنی صنعتوں کو تحفظ دیتے ہیں تو یہ صنعتیں دیرپا نتائج نہیں دے سکتی ہیں لہذا ضروری ہے کہ رکاوٹوں کے بجائے آپ اپنی کارکردگی میں بہتر لائیں"۔
شوکت عزیر نے کہا کہ وہ گزشتہ تیس برسوں سے زاتی حیثیت میں چین کی ترقی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بے مثال ترقی کی ہے۔چین کے ایک دوست ملک کی حیثیت سے پاکستان چین کی ترقی کو بے حد سراہتا ہے۔