چین اپنے سوشلسٹ نظام سے وابستہ رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ڈاکٹر غلام علی
چین اپنے سوشلسٹ نظام سے وابستہ رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ڈاکٹر غلام علی
ڈاکٹر غلام علی ، ماہر چین پاک تعلقات ، سیاسی تجزیہ نگار ، چین پاک تعلقات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور " چائنا پاکستان ریلیشنز " کے نام سے انگریزی میں ایک کتاب بھی تحریر کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر غلام علی نے چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری شی جن پھنگ کی جانب سے افتتاحی اجلاس میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے نہ صرف گزشتہ پانچ برسوں میں کمیونسٹ پارٹی کی زیر قیادت حاصل کی جانے والی کامیابیوں پر روشنی ڈالی گئی بلکہ 2049 تک چین کو ایک اعتدال پسند ،مضبوط ، خوشحال ملک بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ 2049 تک چین نہ صرف معاشی طور پر بلکہ سیاسی اور عسکری طور پر بھی دنیا کی ایک مضبوط قوت بننے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اپنے سوشلسٹ نظام سے وابستہ رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔بعض دہائیوں میں چین پر یہ دباو بھی رہا کہ وہ اپنے نظام کو تبدیل کرے اور مغرب کی پیروی کرئے لیکن چین کی مختلف قیادتوں نے اس دباو کا سامنا کیا لیکن اپنی بنیادوں کو نہیں چھوڑا۔ میرے خیال میں چین کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اس نے مختلف تہذیبوں سے سیکھا اور ان اوصاف کو چین کے علوم اور تاریخ میں ضم کیا لیکن چینی قیادت کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ چین کبھی بھی لکیر کا فقیر نہیں رہا ہے۔ چین میں اسی نظام کی بدولت تمام لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اپنے سوشلسٹ نظام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چین کی ایک تاریخی کامیابی ہے اور مستقبل میں بھی چین اسی فارمولے کے تحت اقدامات جاری رکھے گا۔
چین نے دنیا کو اشتراکی ترقی کا نظریہ دیا اور دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اس کی ایک عملی مثال ہے۔چین دیگر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے اور تمام ممالک کے ساتھ رابطوں کا فروغ چاہتا ہے۔ رابطہ سازی کے اس عمل میں سڑک ، ریل ، فضائی روابط ہی نہیں بلکہ ثقافتی ، تجارتی اور نظریاتی روابط کا فروغ بھی شامل ہے۔ چین ایک ایسے نئے عالمی نظام کو اجاگر کر رہا ہے جس میں ہر ملک دوسرے ملک سے منسلک ہو اور اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وسائل کے حصول کی خاطر مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کا خاتمہ ہو سکے گا۔چین کی جانب سے ایسے مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ مغربی ممالک ، لاطینی امریکی ممالک اور افریقی ممالک شامل ہو رہے ہیں۔ چین عالمی سطح پر اپنے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی بدولت ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے جسے عالمی پزیرائی بھی مل رہی ہے۔ چین معاشی میدان میں دنیا کے دیگر ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے اور ایسے تعاون کا فروغ چاہتا ہے جو فریقین کے مشترکہ مفاد میں ہو۔
ڈاکٹر غلام علی کے مطابق چینی قیادت کی جانب سے بد عنوانی کے خاتمے کے لیے اقدامات لائق تحسین ہیں اور چینی صدر شی جن پھنگ کی حکومت نے اس جانب خصوصی توجہ دی ہے ، تقریباً دس لاکھ لوگوں سے تفتیش کی گئی ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب تک آپ حکومتی سطح پر بد عنوانی پر قابو نہیں پاتے اس وقت تک ملک کو ترقی کی جانب نہیں لے جایا جا سکتا ہے۔چینی حکومت کی جانب سے بد عنوانی کے خاتمے کے اقدامات کو چینی عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور نہ صرف چین بلکہ عالمی سطح پر بھی ان اقدامات کو سراہا جا رہا ہے۔پاکستان بھی چینی ماڈل سے سیکھ سکتا ہے کیونکہ جب تک کوئی ملک بد عنوانی سے پاک نہیں ہو گا وہاں سرمایہ کاری نہیں آئے گی ، دیگر ممالک سے تجارتی روابط فروغ نہیں پائیں گے لہذا پاکستان میں شفاف اور کرپشن سے پاک ماحول یقینی بنانا ہو گا۔وہ تمام ممالک جو ترقی کرنا چاہتے ہیں انہیں بد عنوانی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
ڈاکٹر غلام علی نے کہا کہ ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے چین دنیا کے دیگر کم ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے وہ بھی چینی ماڈل کو اپناتے ہوئے غربت کے خاتمے سمیت دیگر ترقیاتی اہداف حاصل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔