چین کی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں قومی کانگریس کا ایک جائزہ

2017-10-21 13:09:21
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

ڈاکٹر احمد رشید ملک

ڈاکٹر احمد رشید ملک

چین دنیا کے لیے ایک بڑی امید ہے۔یہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا اور جی ڈی پی کی بارہ اعشاریہ ایک ٹریلین ڈالر سے زائد مجموعی مالیت کا حامل ملک ہے  جو دنیا کی کل جی ڈی پی کا پندرہ فیصد بنتا ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں اٹھارویں قومی کانگریس کے بعد نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر  دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ کے عرصے کے دوران  عالمی جی ڈی پی میں چین کی اوسط شمولیت کی شرح میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔فی کس آمدنی میں اضافہ دو ہزار تیرہ میں18,311چینی یوان سے بڑھ کر دو ہزار سترہ میں 23,821چینی یوان تک پہنچ چکا ہے ۔ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں 2013-2016تک کے عرصے کے دوران 3.1فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سائنسی اور تیکنیکی ترقی نے بھی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چینی معیشت کی ترقی کو فروغ دیا ہے۔2016-17کے دوران ایک مختصر  سے وقفے میں سست شرح نمو کے علاوہ مجموعی طور پر  شرح نمو سات فیصد کی شرح کو چھو رہی ہے۔ چین کی جانب سے عام طور پر  ایک مخصوص وقت میں اہداف حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چین کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں سے متعلق پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اٹھارہ تاریخ سے بیجنگ میں انیسویں قومی کانگریس کا انعقاد جاری ہے جس میں آئندہ پانچ برسوں  کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے ۔سی پی سی کی منتخب کردہ سات رکنی اعلیٰ ترین سیاسی باڈی  چینی پالیسیوں میں نمایاں اہمیت رکھتی ہے۔ صدر شی جن پھںگ چینی تاریخ میں  چیئرمین ماوزے تنگ اور  تانگ شیاو پنگ کے بعد ایک طاقتور ترین رہنماء بن کر ابھر رہے ہیں۔

بنیادی حقائق

جناب شی جن پھنگ کے انیسویں قومی کانگریس سے خطاب  کے اہم نکات یہ رہے ہیں۔

سوشلزم

چین زندگی کے تمام شعبہ جات میں سوشلزم سے جڑا رہنا چاہتا ہے۔ گزشتہ اڑسٹھ برسوں میں چینی سوشلزم ریاست کی اولین ترجیح رہا ہے۔ جب کہ نئے عہد میں  چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم  اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔یہ وہ پہلا پیغام رہا جو  شی جن پھنگ نے  کانگریس سے خطاب کے دوران دیا کہ پارٹی کو مارکس ازم۔لینینسٹ ، ماوزے تنگ اور   تانگ شیاو پنگ کے نظریے کے مطابق  سوشلسٹ فلاسفی سے جڑے رہنا چاہیے اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں عوام کی فلاح کو ہر ممکن یقینی بنانا چاہیے۔ چین نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ عدم توازن اور غیر منصافانہ ترقی کے درمیان فرق کو کم کیا جائے اور عوام کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا سوشلزم کا بنیادی فریضہ رہا ہے۔ 

معیشت

انیس سو اٹھتر سے چینی معیشت  کا یہ بنیادی مقصد رہا کہ بلند شرح نمو اور بلند معیاری ترقی کو فروغ دیا جائے۔چینی اداروں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ عالمی سطح پر کاروبار کر سکیں اور مسابقت کا سامنا کر سکیں۔چینی حکومت پر کشش میکرو پالیسیوں کے تحت ریگو لیٹری فریم ورک  بہتر کرتی رہی۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ تک  پندرہ سو سے زائد اصلاحاتی اقدامات متعارف کروائے گئے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چھ کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا۔یہ ترقی پزیر ممالک میں ایک حیران کن پیش رفت ہے۔یہ مہم پر جوش اور جامع ہے۔چین اپنے کھلے دروازے کی پالیسی جاری رکھے گا۔چینی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظ کو ضمانت فراہم کرئے گی۔ دو ہزار پچاس تک چین ایک عظیم سوشلسٹ ملک بن کر ابھرے گا۔

ماحولیات

چین   ماحولیات کے حوالے سےدرپیش مسائل کے حوالے سے حساس ہے اور ماحولیات کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ انسانیت اور فطرت کے درمیان بہترین ہم آہنگی کا قیام چاہتا ہے۔ماحولیات کے تحفظ  کو یقینی بنانے کے لیے چین مزید نگراں اداروں کا قیام عمل میں لائے گا۔

آرمڈ فورسز میکانائزیشن

اکیسویں صدی کے وسط تک تک چین کی افواج کو ایک عالمی معیار کی حامل فوج میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ دو ہزار بیس تک انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تزویراتی صلاحیتوں کی بہتری سے ملٹری میکانائزیشن کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔دو ہزار پینتیس تک مجموعی طور قومی آرمڈ فورسز  کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مرحلہ مکمل کر لیا جائے گا۔

عالمگیر طاقت

چین عالمی سیاست میں کبھی بھی بالادستی کے حصول کی جانب نہیں جائے گا اور اپنے پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند رہے گا۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ نئے عہد میں چین  اپنی پالیسیوں بشمول بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ، مشترکہ مفاد کے تحت تعاون کو فروغ  دے گا اور رابطوں کے فروغ سے عالمگیر سطح پر انسانیت اور تمام قوموں کو آپس میں منسلک کرئے گا۔ عالمی معاملات میں چین عدم تصادم  کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔چین دنیا کی دیگر طاقتوں سے اپنی عداوت میں کمی لائے گا اور امریکہ ، جاپان اور دیگر ممالک سے تعلقات کو بہتر کرئے گا۔ یہ چین کا ایک پرامن عروج ہو گا۔یہی وہ تصورات ہیں جس کے تحت صدر شی نے آئندہ پانچ سالوں اور آنے والے برسوں میں اپنے ملک کے عالمگیر کردار کا عہد کیا ہے۔

خلاصہ

سی پی سی کی انیسویں قومی کانگریس میں آئندہ پانچ برسوں کے دوران مختلف اہم اہداف کے حصول کے لیے ایک وسیع پالیسی فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے۔پارٹی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں چین کو ایک عظیم اور طاقتور ملک بنایا جائے۔ اقتصادی بنیادیں متاثر کن ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں چھ کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں۔مستحکم بلند شرح نمو  سے ایک مضبوط اور پائیدار معیشت کی تعمیر  کے لیے اعتماد بحال ہوا ہے۔


شیئر

Related stories