چین کے شہر چھینگ دو میں امریکی قونصل خانے کو بند کرنا چین کی جانب سے ناگزیر ردِ عمل ہے،چینی وزارت خارجہ
چین کی جانب سے مطالبہ کیے جانے کے بعد ستائیس جولائی کی صبح دس بجے چھینگ دو میں قائم امریکی قونصل خانے کو بند کردیا گیا ۔چینی حکام نے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر یہاں کا اختیار سنبھال لیا ہے۔ اسی دن، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے بیجنگ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں کہا کہ اکیس جولائی کو امریکہ نے اچانک ،یک طرفہ طور پر چین سے مطالبہ کیا کہ ہیوسٹن میں قائم چینی قونصل خانہ بند کیا جائے۔ چین نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ امریکہ فوری طور پر اس غلط فیصلے کو واپس لے، ورنہ چین یقینی طور پر ضروری جوابی کارروائی کرےگا۔
چوبیس جولائی کو چینی وزارت خارجہ نے امریکہ سے کہا کہ وہ چھینگ دومیں امریکی قونصل خانے کو بند کر ے۔ ستائیس جولائی کی صبح ،امریکی اہل کاروں نے قونصل خانے کوخالی کردیا۔ چین کی طرف سے اس قونصل خانے کی بندش کا مطالبہ ، امریکہ کی جانب سے کی جانے والی کارروئی کا جواب ہے اور یہ ناصرف بین الاقوامی قوانین اورتعلقات کے بنیادی اصولوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہے بلکہ سفارتی طریقہِ کار کے بھی عین مطابق ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان جو موجودہ صورتحال ہے، ہم اسے ایسا نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
چوبیس جولائی کو امریکی وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور انٹیلی جنس سروس کے اہل کاروں نے انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ طویل عرصے سے تجارتی راز چوری کرتا تھا ، غیر قانونی سرگرمیوں ،یہاں تک کہ جاسوسی میں بھی ملوث رہا تھا ، متعلقہ سرگرمیوں کی تعداد امریکہ کی منظوری سے زائد تھی ۔ اس قونصل خانے کو بند کرنے کا مقصد دوسرے علاقوں میں موجود چینی سفارتی اہلکاروں کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے روکنا ہے۔
اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ یہ بیانات حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور یہ مکمل طور پر محض افواہیں اور بہتان ہیں۔