چین میں اہم مذاہب

2017-09-26 15:01:31
شیئر:


چین میں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب  یعنی بدھ مت، اسلام اور عیسائیت کے پیروکار آباد ہیں۔ ہان قومیت میں تاؤ مت پر اعتقاد رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔مذہبی آزادی  چینی حکومت کی ایک بنیادی اور طویل المیعاد پالیسی ہے جسے قانونی تحفظ  بھی حاصل ہے۔اس وقت چین میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے کل تین لاکھ سے زیادہ مذہبی پیروکار موجود ہیں ، رجسڑڈ  مذہبی مقامات کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے اور کل پانچ ہزار سے زائد مذہبی تنظیمیں اور محکمے قائم ہیں۔اس کے علاوہ ستانوے مذہبی اسکول بھی موجود ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی ایسو سی ایشنز اپنے اپنے مذہب کی سرگرمیوں کا انتظام  کرتی ہیں۔

 

بدھ مت

بدھ مت سنہ ایک سو  عیسوی میں چین پہنچاجب کہ چوتھی صدی سے  اس کا فروغ شروع ہوا اور یہ چین کا سب سے بڑا بااثر مذہب بن گیا۔چین میں بدھ مت کی تین بڑی شاخیں موجود ہیں یعنی ہان قومیت  کی زبان ، تبتی زبان اور پالی زبان پر مبنی بدھ مت۔ اس و قت چین میں کل دو لاکھ بدھ بھکشو ہیں جب کہ بیس ہزار سے زائد مندرات  بھی موجود ہیں۔

تبتی زبان پر مبنی بدھ مت کی  شاخ لاما مت کہلاتی ہے۔یہ مذہب تبتی اور منگول قومیتوں کے آباد علاقوں میں پھیلا ۔پالی زبان پر مبنی بدھ مت  جنوبی چین کے صوبہ یوئن نان  کے کچھ علاقوں میں موجود ہے ۔

 

تاؤمت

تاؤمت کی ابتدا  ایک ہزار سات سو سال قبل ہوئی اور یہ ہر لحاظ سے چین  کے باشندوں کا اپنا مذہب کہلاتا ہے۔تاؤمت کے پیروکار  قدرت پر یقین رکھتے ہیں ۔اپنے آباؤ و اجداد  کی عبادت کرتے ہیں  اور  اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خاص عبادت کے ذریعے ان کے آباؤ اجداد  لافانی بن سکتے ہیں اور دنیا کے دکھوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر سکتے  ہیں ۔یہ مذہب ہان قومیت میں بھی پھیلا ہے۔ اس وقت چین میں تاؤمت کے کل تین ہزار  مندرات موجود ہیں۔

 

اسلام

اسلام لگ بھگ ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں  چین میں پہنچا۔چین میں ہوئی، ویغور، تاتار  اور ازبک سمیت متعدد قومیتیں اسلام کی پیروکار ہیں ۔ اس وقت چین میں دو کروڑ دس لاکھ سے زائد  مسلمان آباد  ہیں۔ان میں سے بیشتر  چین کے سنکیانگ ، نینگ شیا ، گانسو، چھینگ ہائی اور یوئن نان کے علاقوں میں آباد ہیں۔اس وقت چین میں کل پینتیس ہزار مساجد  موجودہیں جب کہ  چالیس ہزار   کے قریب امام مسجد ہیں۔

 

عیسائیت

سنہ سات سو  عیسوی میں مختلف عیسائی فرقوں کےلوگ چین آئے۔ تیرہویں صدی میں عیسائی مبلغوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ سنہ اٹھارہ سو میں رومن کتھولک چرچ نے مزید مبلغ  چین بھیجے۔اٹھارہ سو چالیس  میں چین کے خلاف مغربی ملکوں کی  جارحانہ جنگ کے بعد عیسائیت  چین میں وسیع پیمانے پر پھیل گئی۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چین کے مذہبی حلقوں نے غیرملکی غلبے سے نجات حاصل کرنی شروع کی  اور سامراجی مذہبی سرگرمیوں کے بھیس میں جو  لوگ تخریب کاری کر رہے تھے، ان کے خلاف اقدامات  کیے گئے۔اس وقت چین میں عیسائیت کے دو کروڑ سے زائدپیروکار اور چھ ہزار سے زائد چرچ   ہیں۔