فاسٹ ٹیلی سکوپ

2017-12-15 17:41:18
شیئر:

 

فاسٹ ٹیلی سکوپ

تجسس انسانی سرشت ہے۔کچھ کرنے اورڈھونڈنے  کا جزبہ انسان کو ودیعت ہوا ہے۔  جاننے کی اسی تشنگی کو بجھانےکے لیے نِت نئے تجربات اور ایجادات ہوتی رہتی ہیں۔ زمین پر موجود اشیاء تو انسانی دسترس میں ہیں مگر  زمین سے اوپر خلاوں اور آسمانوں میں  ہونے والی نقل و حرکت  کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کےلیے بھی  کوششیں جاری ہیں۔

مختلف ممالک کے ادارے  اس حوالےسے تحقیقات میں مصروف ہیں۔   انسانی قسمت پرستاروں  کےاثرات جاننے کے دعویدار تو بہت ہیں مگر ان کے سائنسی تجزیے ، تحقیق اور ان کے ہمارے سیارے"زمین"  پراثرات  صرف سائنسدان ہی کر سکتے ہیں۔

یہ  معاملہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں ہیے بلکہ یہ اس کرہ ارض پر بسنے والوں کم وبیش چھ ارب سے زائد  انسانوں کا ہے اس لیے  سیاروں اور ستاروں کی دنیا کے معاملات کو جاننے کے لیے کثیر رقم اور فنڈز درکار ہوتے ہیں۔۔

چین اس حوالےسے تحقیقات میں مصروف ہے۔  اور اس نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ یا " زمین کا سب سے بڑا کان" تیار کیا ہے۔ اس کو اس کو سب سے بڑی انسانی آنکھ بھی کہا  جاتا ہے۔  

فاسٹ کا محلِ وقوع

یہ ٹیلی سکوپ چین کے جنوب مغربی صوبے گوئچو کی ایک کاونٹی پھنگ تھانگ میں واقع ہے۔    یہ چاروں اطراف سے   بلندو بالا پہاڑوں میں گھری ہوئی  ہے اور   پہاڑ کے دامن میں نصب ہے۔  دور سے دیکھنے پر  ایک بڑے پیالے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔   اطراف میں موجود پہاڑ قدرتی چار دیواری کا کا م دیتے ہیں۔

سب سے بڑی ٹیلی سکوپ

یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ ہے۔ اس کا رقبہ تیس فٹ بال گراونڈز کے برابر ہے۔

فٹ بال کےا یک گراونڈ کو ذہن میں رکھ کے تیس کا تصور کریں اور تخیلاتی آنکھ سے اس کے حجم کااندازہ کریں۔ اس عمل میں یا تو آپ کو جھرجھری آ جائے گی یا آپ اس نوعیت کے حساب کتاب سے قاصر ہو جائیں گے۔ مگر  عام انسان کےلیے محیر العقول  فٹ بال کے تیس گراونڈز کے برابر  یہ ٹیلی سکوپ  زندہ  وجود کی طرح سائنسدانوں اور عام شہریوں کے لیے اپنے در وا کیے ہوئے ہے۔

   یہ  پورٹیریکو میں واقع  اسی نوعیت کی ایک ٹیلی سکوپ سے  جحم میں ایک سو پچانوے میڑ اور کارکردگی کے اعتبار سے کئی گنا زیادہ وسعت کی حامل ہے۔  پورٹیریکو میں واقع ٹیلی سکوپ کے بعد دنیا کو چار عشروں سے زائد کا انتطار کرنا پڑا اور چین نے عالمی برادری کے اس طویل انتظار کو "فاسٹ" کے ذریعے ختم کیا۔  اس کی تعمیر پر ایک سو اسی ملین ڈالر لاگت آئی ۔ ٹیلی سکوپ کے ارد گرد سائنسی اور تیکینکی ضروریات کے پیشِ نظر  آٹھ ہزار لوگوں کو یہاں سے دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا ۔   اس کے اردگرد تین میل کے دائرے میں  ٹیلی سکوپ کے علاوہ کسی بھی طرح  کی برقی کمیونیکیشن کی اجازت نہیں ہے۔

 فاسٹ کا دائرہ کار

فاسٹ ٹیلی سکوپ  سیاروں ، ستاروں اور اجرامِ فلکی سے وابستہ  دیگر نقل وحرکت کی سائنسی پڑتال کرے گی۔   اس میں نصب مانیڑز اور دیگر آلات کی حساسیت اتنی تیز ہے کہ اس نے ایک ہزار تین سو اکاون نوری سال کے فاصلے پرواقع ایک ستارے کی لہروں کو مانیٹر کر لیا۔

  اس کے ذریعے  ایک سال کے دوران کہکشاں میں موجود سات ہزار سے زائد ستاروں کا مطالعہ کیا جائے گا۔   یہ  سائنسدانوں کے لیے ایک ہزار نوری سال کے فاصلے تک ہونے والی نقل وحرکت  اور سگنلز  کی مانیڑنگ  آسان بنا دے گی۔ اس سے اجرامِ فلکی  اور ان کی سائنسی تحقیقات سے پوری دنیا کو آسانی  ہوگی۔

  فاسٹ کا دورہ

 فاسٹ کا تصور اور اس کی سائٹ کو دیکھنا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ اس کی خبر سنتے ہی دل مچل اٹھا کہ اس کو دیکھا جائے مگر اس کی سائنسی اہمیت اور حساسیت کے پیشِ نظر دل " ایں محال است"  جیسے  اندیشوں میں  گِھر گیا  اور طرح طرح کے سوالات  سر اُٹھانے لگے۔  مگر اس کے دید کی خواہش چنگاری کی صورت برقرار رہی۔ ایک روز اطلاع ملی کہ  فاسٹ کا "دیدار" آج ہو گا۔  یہ سن کر دل بلیوں اچھلنے لگا ۔ ایسا محسوس ہواکہ شائد خواب ہو یا جاگتی آنکھوں  کسی خواب  میں کھو گئے ہیں۔ 

مگر یہ خواب و خیال نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی  اور یقین ہو گیا کہ اس عالمِ رنگ وبو میں خواب ضرور پورے اور شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں۔

چونکہ یہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے تو اس کا راستہ  " انہی پتھروں پہ چل کے آ سکو" کے مصداق ہے۔ مگر چلنا پاوں پر نہیں بلکہ گاڑی آپ کو ایک مخصو ص مقام تک لے جاتی ہے۔

جوں جوں منزل قریب آتی ہے توں  توں دل کی دھڑکن  تیز اورخوشی کے جذبات توازن سے محروم ہونے لگتے ہیں۔   دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ کو ا پنی آنکھوں سے  اور قریب سے دیکھنے کا تصور ہی مست کر ڈالنے کے لیے کافی تھا کجا اس کی دید۔

    منتظیمین کو شائقین کی اس کمزوری کا شائد علم ہے اس لیے پہلے ایک  پلانیٹیریم کا دورہ کروایا جاتا ہے ۔  اس  پلانیٹیریم  میں اجرامِ فلکی کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات مہیا  کی جاتی ہیں   اور مختلف طرح  کے سائنسی ماڈلز حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔

 پلانیٹیریم میں  گھومتے ہوئے انسان اپنے آپ کو کسی اور دنیا کا باسی تصور کرتا ہے۔  اسی پلانیٹیریم میں  اجرامِ فلکی کے متعلق ایک دستاویزی پروگرام دکھایا جاتا ہے۔  حقیقت تو یہ ہے  کہ یہ پلانیٹیریم  ٹیلی سکوپ کو دیکھنے کے جذبے  کو  مزید مہمیز دیتا ہے۔

  پلانیٹیریم کے  دورے  کے بعد  ٹیلی سکوپ دیکھنے کے لیے رختِ سفر باندھنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 

اس سفر کی کچھ  شرائط ہیں۔  موبائل فون،  گھڑی ، کسی بھی قسم  کا کوئی برقی آلہ جو کمیونیکیشن  کر سکتا ہے  اس کو ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔  موبائل فون ساتھ  نہ لے جانے کی خبر سے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ کیونکہ اس کےبغیر اپنی موجودگی کو وہاں کیسے محفوظ اور یاد گار بنایا جا سکتا تھا۔   اور زندگی کے اس ناقابلِ فراموش لمحے کو  مستقبل کے لیے محفوظ  نہ کر سکنا ایک حسرت ہی رہ جاتی ۔ مگر ضوابط کی پابندی لازمی جو ٹھہری سو طوعاً و کرہاً  اور بادلِ نخواستہ  منتظمین کی ہدایات پر عمل کیا۔(بعد میں منتظمین کی جانب سے وہاں ایک مخصوص کیمرے کی فراہمی سے اس تاریخی لمحے کو یاد گار بنا لیا گیا۔)

عمل کیے بغیر چارہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ سکینر سے گزرنا تھا  اور سکینر مشین جو ٹھہری  اور مشینوں میں کہاں کی  "وضع داری"۔

اس عمل سے فراغت پا کر بس میں بیٹھے  اور عازمِ سفر ہوئے۔   پلانیٹیریم اور فاسٹ کے بیس پوائنٹ  تک پندرہ منٹ کا راستہ ہے۔ یہ راستہ پہاڑوں کے درمیان  بل کھاتا ہوا گزرتا ہے۔ چاروں اطراف  بلندو بالا پہاڑ اور سبزہ ہے۔  جو دیکھنے والوں کو اپنی خوبصورتی سے متاثر کرتے ہیں۔

بس  مقررہ مقام تک  پہنچ کر  رکتی ہے اور  لوگ اتر کر ایک مرتبہ پھر چیکنگ  کے مراحل سے گزرتے ہیں۔   ہم تو یہ سمجھے تھے کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم اور ہمیں کسی زمین دوز راستے یا سرنگ کے ذریعے ٹیلی سکوپ تک لے جایا  جائےگا۔ مگر پھر ایک اعلان سماعتوں سے ٹکراتا ہےکہ  سامنے پہاڑ کو دیکھیں اور پہاڑ پر  بنی ایک گزرگا ہ   پر چلنا شروع کردیں۔   یہ گزرگاہ   آپ کو منزلِ مقصود تک لے جائے گی۔   ایک تو سفر  کی تھکاوٹ ، فاسٹ کے دیدار کا انتظار  اور اوپر سے پھر پہاڑ پر چڑھنا ۔  اس نے تو ہمیں امتحان میں ڈال دیا  اور دل نے کہا  کہ  " ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں باقی"۔

 سو ہمتِ مرداں  مددِ خدا کے مصداق  چل پڑے ۔  مگر جب گزرگاہ کےپاس پہنچے تو دل کو ڈھارس ہوئی ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ عام اونچی ، نیچی ، خاردار پگڈنڈیاں ہوں گی جن پر ہمیں  سنبھل کر  اور دامن  بچا کر چلنا ہوگا۔  مگر یہ تو معاملہ ہی اور نکلا۔

یہ باقاعدہ ایک راستہ تھا۔جو کہ چینی حکومت نے  سیاحوں کی آسانی کے لیے بنایا  ہوا ہے۔ یہ لکڑی سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہیں۔ اطراف میں ریلنگ ہے۔  اور ان پر چڑھتےہوئے راستے میں آرام اور سستانے کے لیے  جگہ بھی موجود ہے۔  یوں آپ تسلی اور اطمینان سے  فاسٹ کی جانب  رواں دواں رہتے ہیں۔ کوئی  پتھریلا یا نا ہموار راستہ جو آپ کے صبر اور جسمانی صحت کا امتحان لے وہ یہاں نہیں ہے۔  ویسے جتنی بلند ی آپ کو طے کرنی ہوتی ہے اس کے لیے آپ کا صحتمند ہونا بہت  ضروری ہے۔

 یہ راستہ کم وبیش دس سے پندرہ منٹ کا ہے۔  جب آپ راستہ طے کر رہے ہوتے ہیں توتھکاوٹ  اور فاسٹ کے متعلق ملے جلے جذبات  آپ کے شاملِ حال ہوتے ہیں۔

مگر جب آپ منزل پر پہنچتے ہیں تو  فاسٹ کو دیکھتے ہی ساری تھکاوٹ کافور اور حیرت اور خوشی کے جذبات دوںوں اکٹھے آپ کو گھیر لیتے ہیں۔ 

فاسٹ پر نظر پڑتے ہی ابتدائی چند ساعتیں اور لمحات تو بے یقینی کے ہوتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ  سب سے بڑی انسانی آنکھ کو  ہم اپنی سکس بائی سکس کی چھوٹی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔

 خود فراموشی اور ارد گرد کے ماحول سے بے نیازی کی یہ ساعتیں مختصر گھڑیاں ثابت ہوتی ہیں۔ اور جلد ہی ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے آپ کو اسی زمین اور بلندی پر موجودگی کا احساس  دلا دیتے ہیں۔

 اپنی سہولت کے لیے کو  اِن کو فلور کہہ لیں ۔  فاسٹ کو دیکھنے کے لیے تین طرح کے فلور ہیں ۔ کم بلند ، درمیانے درجے کا بلنداور سب سے بلند

 تینوں فلور بڑے کھلے ہیں اور ان پر ریلنگ موجود ہے جس  کے سہارے آپ کھڑ ے ہو کہ فاسٹ کو دیکھتے ہیں۔   تینوں فلورز سے فاسٹ کا مختلف  منظر اور نظارہ ہوتا ہے۔

وہیں کھڑے کھڑے تخیل کی آنکھ  اور تصور  آپ کو اس  زمین کے اوپر کی کائنات میں لے جاتا ہے۔ آپ خیالوں خیالوں میں ہی  مختلف طرح کے سیاروں، ستاروں ، ان کے باہمی ربط  اور ان کی نقل وحرکت اور اس سے پیدا ہونے والی آوازوں کے متعلق  سوچتے ہیں اور ایک لمحے کے لیےاپنے  آپ کو وہاں موجود پاتے ہیں۔

 اس کے پینلز ، ان کی تنصیب و ایک خاص ترتیب،  تیکنیکی آلات  اور پلیٹ فارم جس پر یہ نصب ہے  انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں   اتنے بڑے ڈھانچے کی تیاری، اس مقام پر منتقلی  اور تنصیب   اور اس سائٹ کا انتخاب  چینی  ذہانت، عزم اور مہارت کا  کھلا اور منہ بولتا ثبوت ہے۔

بلندی سے ایک پیالے کی مانند دکھائی دیتی یہ ٹیلی سکوپ اپنے اندر اجرامِ فلکی کے متعلق  علم اور  سائنس کے پراسرار رازوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔  یہ  مکمل طور پر چین کے سائنسدانوں  کی تیارکردہ  ہے اور چین کی جانب سے عالمی برادری کے لیے  ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔  کیونکہ زمین سے اوپر کی کائنات کی پیچیدہ گتھیوں  کو جاننے، سمجھنے ، سلجھانے سے صرف چین  ہی نہیں پوری دنیا کا فائدہ ہے۔  فاسٹ کے دورے نے اس یقین کو پختہ کر دیا کہ ٹیکنالوجی میں جدت اور اختراعات کا مستقبل  چین میں ہے۔

(محمد کریم احمد)