تائیوان
تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا ایک اہم صوبہ ہے۔یہ ایک جزیرہ ہے اور دیگر اسی سے زائد چھوٹے بڑے جزائر پرمشتمل اس صوبے کا کل رقبہ تقریباً چھتیس ہزار مربع کلومیٹر بنتا ہے۔تائیوان کے حدود اربعہ اور جغرافیائی محلِ وقوع کے حوالے سے معلومات مندرجہ ذیل ہیں۔۔
حدود اربعہ
تائیوان کے شمال میں بحیرہ مشرقی چین ہے۔شمال مشرق میں لیو چھو کے نام سے پہچانے جانے والے جزائر واقع ہیں۔مشرق میں بحرالکاہل اور جنوب میں آبنائے باشی ہے۔تائیوان کے مغرب میں چین کا ایک اور صوبہ فوجیئن ہے۔تائیوان اور فوجیئن صوبوں کے درمیان آبنائے تائیوان ہے۔دونوں صوبوں میں کم سے کم سمندری فاصلہ ایک سو تیس کلو میڑ ہے۔تائیوان کا پورا صوبہ مغربی بحرالکاہل کو جانے والی سمندری گزرگاہ میں واقع ہے۔چین،جاپان ،شمالی وجنوبی کوریاکے قریب واقع ہونے کی وجہ سے تائیوان نہایت اہم تزویراتی اور جغرافیائی حیثیت کا حامل ہے۔
آبنائے تائیوان
درج بالا سطور میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آبنائے تائیوان چین کے دو اہم صوبوں یعنی جزیرہ تائیوان اور صوبہ فوجیئن کےدرمیان وقوع پزیر ہے۔آبنائے تائیوان کی طوالت شمالاً جنوباً تین سو اسی کلو میٹر اور چوڑائی شرقاً غرباً اوسطاًایک سو نوے کلو میڑ بنتی ہے۔خشکی کے ان دونوں ٹکڑوں کا آپس میں سب سے کم سمندری فاصلہ تائیوان کے شن چو اور فوجیئن کےساحلی علاقے پھینگ تھان کے درمیان ہے۔اگر موسم صاف اور خوشگوار ہو تو فوجیئن کے کسی اونچے ساحلی مقام سے نظارہ کرنے والوں کو تائیوان کے بلند پہاڑوں کے اوپر بادلوں کے ٹکڑے اور بالخصوص شمالی تائیوان میں واقع چی لونگ نامی اہم بلند پہاڑی چوٹی نظر آ جاتی ہے۔
جغرافیائی حالات
اسی سے زائد جزیروں پر مشتمل سب سے بڑے جزیرے ہی کے نام یعنی تائیوان سے پورا صوبہ جانا پہچانا جاتا ہےجو کل صوبے کے ستانوے فیصد سے زائد رقبے پر مشتمل ہے۔جزیرے کی جغرافیائی ساخت دو تہائی حصے سے زائد بڑے پہاڑوں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہےجب کہ میدانی حصہ ایک تہائی سے ذرا کم ہے۔مشہور پہاڑوں میں مرکزی پہاڑ ،یو پہاڑ،برف پوش پہاڑ ،آلی پہاڑ اور تائد ونگ پہاڑ پر مبنی کوہستانی سلسلے زیادہ مشہور ہیں۔طبعی خدوخال کے لحاظ سے تائیوان کا وسطی حصہ اونچا اور اطراف کی سطح نیچی ہے۔
تائیوان کے پہاڑی سلسلوں میں سب سے بلند چوٹی یوشان پہاڑ کی چوٹی یو پہاڑ کے نام سے جانی جاتی ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے تین ہزار نو سو ستانوے میٹر ہے۔
آب وہوا
جغرافیائی محل وقوع اور کرہ ارض کی تقویمی تقسیم کے لحاظ سے صوبہ تائیوان منطقہ معتدلہ اور منطقہ حارہ کے درمیان واقع ہے۔جزیرہ ہونے کے ناطے اور چاروں اطراف سمندر کی موجودگی کی بدولت مون سون ہوائیں چلنے کی وجہ سے پورے تائیوان کا موسم خوشگوار رہتا ہے۔موسم سرما میں سردی نہیں پڑتی جب کہ موسم گرما میں شدید گرمی بھی نہیں ہوتی ۔ماسوائےپہاڑی علاقے کےپورے تائیوان میں سالانہ اوسط درجہ حرارت بائیس ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ رہتا ہے۔اس صوبے میں برف عام طور پر نہیں پڑتی صرف وہ پہاڑی چوٹیاں جن کی سطح سمندر سے بلندی تین ہزار میڑ سے زیادہ ہے،سردیوں کے موسم میں برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہیں۔مون سون کے موسم میں تائیوان میں شدید بارشیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سیلاب اور طوفان بھی آتےرہتے ہیں۔
قدرتی وسائل
تائیوان کا صوبہ قدرتی وسائل ،معدنیات،اور جنگلی حیات سے مالا مال ہے۔جنگلات پورے صوبے کے آدھے حصےسے زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔تائیوان کے جنگلات کا رقبہ یورپ میں جنگلات کے لحاظ سے مشہور ملک سوئٹزر لینڈ سے دگنا بنتا ہے۔یہاں کے جنگلات ہر قسم کے درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ان جنگلات میں چار ہزار سے زائد انواع و اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں ۔پورے صوبے میں نقد آور درختوں کا رقبہ جنگلات کے کل رقبےکے اسی فیصد کے برابر ہے۔ان جنگلات میں عمارتی لکڑیوں کے ذخائر کا تخمینہ تیس کروڑ مکعب میڑ سے زیادہ بتایاجاتا ہے۔
تائیوان کے جزیرے میں کافور کے جنگلات پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان جنگلات سے پیدا ہونے والےکافوری تیل کی پیداوار پوری دنیا کی پیداوار کا ستر فیصد حصہ ہے۔چاروں اطراف سمندر ہونے ،گرم اور سر دہواؤں کے آپس میں ٹکراؤ ،بادلوں اور بارشوں کی وجہ سے یہاں سبزہ اور زرخیزی زیادہ ہے۔
سمندری حیات
تائیوان کے ارد گرد کاسمندر آبی حیات اور وسائل سے مالا مال ہے۔اس خطے میں سمندری پانی کے گرم اور سرد دھارے آ کر مل جاتے ہیں اور یہی دھارے انواع واقسام کی مچھلیاں بھی اپنی اطراف دھکیل کر لاتے ہیں۔تائیوان کے سمندر میں پانچ سو سے زائد اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔کئی ساحلی علاقے مثلاً گاؤ شیونگ جی لونگ،سی آؤ،ہوالیان،شین گانگ، پھونگ ہو وغیرہ ،ماہی گیری کی صنعت کے لیے انتہائی مشہور ہیں۔ساحلی علاقوں میں سمندر سے بنا نمک بھی تائیوان کی صنعتی پیداوار کا ایک اہم حصہ ہے۔
آبادی
خطہ تائیوان دنیا کے گنجان آباد خطوں میں سے ایک ہے۔دو ہزار دس میں ہونے والی مردم شماری کے اعدادوشمارکے لحاظ سے تائیوان کی کل آبادی دو کروڑ اکتیس لاکھ تیس ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔مردوں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ چودہ لاکھ نواسی ہزار ہے۔جب کہ خواتین کی آبادی کا تناسب مردوں سے کچھ زیادہ ہے۔آبادی کے لحاظ سے تائیوان بھی چین کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔
تائیوان کی آبادی میں عمر رسیدہ افراد کی شرح میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔مقامی حکومت کی جانب سےدو ہزار بارہ میں جاری کردہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تائیوان میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر والوں کی تعداد چھبیس لاکھ ایک سو باون تھی جو کل آبادی کا گیارہ اعشاریہ ایک فیصد بنتا ہے۔تائیوان میں جیاای کاؤنٹی،یون لین کاؤنٹی اور پھونگ ہو کاؤنٹی میں عمر رسیدہ افراد کا تناسب چودہ فیصد سے زائد ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ اصولوں کےمطابق عمر رسیدہ معاشرت کہلائی جا سکتی ہے۔
تائیوان کے مختلف علاقوں میں آبادی کا تناسب مختلف ہے ۔سطح سمندر سے ایک ہزار میڑ بلند علاقوں میں جو کل رقبے کا ایک تہائی بنتاہے،آبادی کا تناسب بیس افراد فی مربع کلو میڑ ہے جبکہ شہروں میں کئی ہزار افراد فی مربع کلو میٹر کےعلاقے میں رہائش پذیر ہیں۔تائبے اور گاؤ شیونگ شہروں میں آبادی کا تناسب دس ہزار نفوس فی مربع کلو میڑ ہے۔
تائیوان میں آبادی سے متعلق حکومتی پالیسی وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہے۔تائیوان میں انیس سو پینسٹھ میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز ہواجس کے حساب سے ایک جوڑے کو ایک سے زیادہ یا دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی۔اس پالیسی کے نفاذ کی وجہ سے شرح اضافہ میں کمی واقع ہوتی گئی۔تاہم دوسری طرف عمر رسیدہ افراد کے تناسب میں اضافے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت اور نوجوانوں کی آبادی کے تناسب میں کمی واقع ہو گئی۔
ان وجوہات کی بنا پر تائیوان کی حکومت نے انیس سو نوے میں آبادی سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے لوگوں کو اجازت دی کہ ایک جوڑا تین سے بھی زیادہ بچے پیدا کر سکتا ہے۔
قومیتیں
تائیوان کے صوبے میں مختلف چینی قومیتیں آباد ہیں جن میں ہان،منگولیائی،ہوئی،میاؤ،گاؤشان زیادہ نمایاں ہیں۔ تاہم تائیوان کی کل آبادی میں ہان قومیت کے مقابلے میں دیگر قومیتوں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔کیوں کہ ہان کل آبادی کے ستانوے فیصد سے زیادہ ہیں ۔ہان قومیت میں دو اہم شاخیں ہیں جن کو مین نان اور کھہ جیا کہتے ہیں۔ زیادہ تر مین نان لوگ صوبہ فوجیئن کے چھوان چو اور چانگ چو شہروں سےتعلق رکھتے ہیں۔جب کہ کچھ لوگ صوبہ گوانگ دونگ کے شہروں مے چو اور چھاؤچو سے تعلق رکھتے ہیں۔
مختلف قومیتیوں میں گاؤ شان قومیت والے لوگ تائیوان کی اہم اقلیتی قومیت ہیں۔ماہرین کی رائے میں مختلف تحقیقات کی روشنی میں اس بات کا غالب امکان ہے کہ گاؤشان قومیت سےتعلق رکھنے والے لوگوں کے آباواجداد نےمرکزی چین سے تائیوان نقل مکانی کی ہے۔ گاؤشان قومیت والے لوگ تائیوان میں میدانی اور پہاڑی حصوں میں منقسم ہیں۔ گاؤشان قبیلے کے افراد کی تعداد سنہ دو ہزار ایک تک چار لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
تائیوان کے اہم شہر
یوں تو تائیوان میں کئی چھوٹے بڑے شہر ،قصبے،ساحلی بندرگاھیں ،ٹاؤن اور دور دراز کے گاؤں اور قصبہ جات ہیں۔لیکن شہروں میں پانچ نام بہت اہم ہیں جن میں تائبے ،شین بے،تائی چونگ،تائنان اور گاؤ شیونگ شامل ہیں۔
تائبے شہر تائیوان کے شمال میں واقع ہے۔یہ شہر دو سو بہتر مربع کلو میٹر کے علاقے پر محیط ہے۔جزیرہ تائیوان کا یہ سب سےبڑا شہر ہے۔جنوری دو ہزار بارہ تک اس شہر کی مجموعی آبادی تقریباً چھبیس لاکھ ترپن ہزار نفوس تک جا پہنچی تھی۔یہ تائیوان کا دوسرا بڑا گنجان آباد شہر بن چکا ہے۔
تائبے تائیوان کا اہم صنعتی،تجارتی اور کاروباری مرکز ہے۔ صوبے کی سب سے بڑی کمپنیوں، صنعتی اداروں ،بینکوں اور دیگر کمرشل اداروں کے صدر دفاتر یہاں واقع ہیں۔تائبے شہر تائیوان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی علاقہ ہے۔یہ شہر تائیوان کا تعلیمی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔یونیورسٹیوں میں تائیوان یونیورسٹی ،یونیورسٹی برائے سیاسیات اور تائیوان تدریسی یونیورسٹی نمایاں ہیں۔ان یونیورسٹیوں سمیت تائبے میں چوبیس چھوٹی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہیں۔
تائیوان کے اطلاعات ،نشرواشاعت ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مراکز بھی تائبے شہر میں واقع ہیں۔صوبے کا سب سےبڑ ا کتب خانہ اور عجائب گھر بھی یہاں تعمیر کیا گیا ہے۔
تائبے شہر میں جدید زمانے کی تمام تر سہولیات مہیا ہیں۔یہ شہر تائیوان میں ریلوے اور شاہراہوں کی مرکزی گزر گاہ ہے۔شہر کی دو اہم بندر گاہوں کے نام جی لونگ اور دان شوئی ہیں۔تائبے کا سونگ شان ہوائی اڈہ تائیوان کا دوسرا بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔
گاؤ شیونگ شہر جزیرہ تائیوان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔اس شہر کا کل رقبہ دو ہزار نو سو سینتالیس مربع کلومیڑ ہے۔اس شہر کی کل آبادی ستائیس لاکھ اسی ہزار ہے جو آبادی کے لحاظ سے تائیوان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔یہ شہر بھی صنعتی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یہاں تیل صاف کرنے کے کارخانے،اسٹیل کے کارخانےاورجہاز سازی کے کارخانوں سمیت دیگر کئی بڑے بڑے کارخانے قائم ہیں۔اس کےساتھ ساتھ بجلی کی مصنوعات ،مشین سازی، سیمنٹ ،کھاد،ایلومینئم ،چینی تیار کرنے کے کارخانے اور دیگر کئی صنعتیں یہاں پر کافی ترقی کر چکی ہیں۔
گاؤشیونگ شہر کو ماہی گیری کے صنعتی مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔یہ شہر صوبے کے دیگر حصوں کے ساتھ زمینی سمندری اور فضائی نقل و حمل کے ذریعے ایک مربوط نظام کے تحت منسلک ہےجب کہ صوبے کے باہر سمندری اور فضائی سفر کا بھی موئثر انتظام موجود ہے۔گاؤ شیونگ کی بندرگاہ عمدہ جغرافیائی محل وقوع رکھنے کے اعتبار سے جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان بحری نقل و حمل کا اہم مرکز بن چکی ہے۔گاؤ شیونگ بندرگاہ تائیوان کی سب سے بڑی بندر گاہ ہے۔تجارتی آمدورفت اور سازوسامان کی نقل و حمل کے حوالے سے یہ بندر گاہ دنیا میں اس وقت بارہویں نمبر پر ہے۔
گاؤشیونگ کی ایک اور خصوصیت اس کی خوبصورتی اور سال بھر رہانے والا خوشگوار موسم ہے۔یہاں پورے سال سردی نہیں پڑتی اور موسم خوشگوار رہتا ہے۔
تائی چونگ شہر تائیوان کے وسط میں واقع ہے۔اس کا مجموعی رقبہ دو ہزار دو سو پندرہ مربع کلو میڑ ہے۔سنہ دو ہزار بارہ تک اس شہر کی کل آبادی چھبیس لاکھ اسی ہزار تک جا پہنچی تھی۔آبادی کے لحاظ سے یہ تائیوان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
تائی چونگ تائیوان کے وسط میں علم و ثقافت ،معیشت،کاروبار اور بہترین نقل و حمل کا حامل ایک تیزی سے ترقی کرنے والا شہر بن چکا ہے۔اس شہر کی ایک منفرد خصوصیت اس کی تاریخی حثییت بھی ہے۔کیوںکہ یہ تائیوان میں بدھ مت کا مرکز بھی ہے۔تائی چونگ شہر کو تائیوان کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔
تائنان شہر تائیوان صوبے کے جنوب مغربی ساحل پر واقع ایک اہم بندرگاہ ہے۔تائنان کا علاقہ تائیوان میں زراعت اور چینی کا اہم پیداواری مرکز بھی ہے۔شہر کا کل رقبہ دو ہزار ایک سو بانوے مربع کلو میٹر ہے۔سنہ دو ہزار بارہ تک تائنان کی آبادی اٹھارہ لاکھ اسی ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔تائنان آبادی کے لحاظ سے صوبے کا چوتھا بڑا شہر اور تائیوان کا سب سے پرانا شہر ہے۔اس شہر میں آثارِقدیمہ کے بہت سےمقامات دریافت ہو چکے ہیں جن میں چھوچھیان لو نامی عمارت،آن پھینگ نامی قدیم قلعہ اور جنگ چھنگ گو نگ نامی مشہور چینی سیاست دان اور فوجی جرنیل کے نام سےموسوم یاد گار عمارت بہت زیادہ مشہور ہیں۔تائنان شہر میں دو سو سے زائد مذہبی عبادت گاھیں بھی موجود ہیں۔جن میں اکثریت چرچ اور مندروں کی ہے۔
شین بے شہر جزیرہ تائیوان کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔اس کا کل رقبہ دو ہزار باون مربع کلو میڑ ہے۔سنہ دوہزار تک اس شہر کی آبادی انتالیس لاکھ بیالیس ہزار نفوس تک پہنچ چکی تھی۔شین بے شہر تائیوان میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔
تائیوان کی تاریخ
تائیوان تاریخی،جغرافیائی ،ثقافتی اور تمدنی، غرض ہر لحاظ سے چین کی عظیم سلطنت کا ایک ناقابل تقسیم اور نہ جدا ہونےوالا حصہ رہا ہے۔ماہرینِ جغرافیہ،ارضیات اور مورخین کے مطابق تائیوان زمانہ قدیم میں مرکزی چین کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔بعد میں ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چین کا یہی ٹکڑا جسے آج تائیوان کے نام سے جانا جاتا ہے ،چین سے اس طرح الگ ہوا کہ خشکی کا ایک ٹکڑا زمین میں ڈوب گیا،جس کےاوپر اب آبنائے تائیوان بن گیا ہےاور تائیوان پانی کی بدولت الگ ہو کر ایک جزیرہ بن گیا۔تائیوان میں مختلف مقامات پر کھدائی کے بعد دریافت ہونے والی اشیاء پر تحقیق اور جائزے کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ تائیوان کی قبل از تاریخ کی ثقافت اور چین کے سوادِاعظم کی قدیم ثقافت ایک جیسی تھی۔تائیوان میں مختلف مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے پتھر وں کی آواز ،مٹی کے کالے اور رنگین برتن اور دیگر اشیاء چین میں پائے جانے والے آثار قدیمہ سے قریبی مشابہت اور مماثلت رکھتے ہیں۔
قدیم دستاویزات کے مطابق سنہ دو سو تیس میں دو سلطنتوں کے مشہور بادشاہ سون چھوان نے اپنے دو جرنیلوں کو دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ تائیوان کےجزیرے پر بھیج دیا تھا۔اسی طرح کافی عرصہ پہلے چین کے سو ادِاعظم کے باشندوں نے اپنی علمی ،ثقافتی اور تمدنی ترقی کی لہر تائیوان تک پہنچائی اور یوں اس جزیرے پر ایک عظیم چینی تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی گئی۔چھٹی صدی کے آواٖخر اور ساتویں صدی کے شروع کے اوائل میں سوئی خاندان کے بادشاہ سوئی یانگ ڈی نے تین دفعہ اپنے خصوصی ایلچی تائیوان بھیجے تھے۔جن کی بدولت شاہی سلطنت اور تائیوان کے باشندوں میں میل میلاپ کافی بڑھ گیا۔تھانگ اور سونگ شاہی خاندانوں کے ادوار میں چین میں کئی جنگیں ہوئیں۔جنگ و جدل اور قتل و غارت گری سے بچنے کے لیے عظیم چینی سلطنت سے بڑی تعداد میں لوگ پھونگ ہوا اور تائیوان کے جزیرے پر منتقل ہو گئے۔یوان شاہی خاندان کے دور اقتدار میں سنہ تیرہ سو پینتیس میں ایک باقاعدہ سرکاری ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذمے پھونگ ہوا اور تائیوان کے سول امور کا انتظام سپرد کر دیا گیا اور یوں چینی حکومت کی سر پرستی میں تائیوان میں حکومتی اداروں کے قیام کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
مینگ شاہی خاندان کے زمانہ اقتدار میں عظیم چینی سلطنت اور تائیوان کے لوگوں میں قریبی روابط استوار ہو گئے۔اسی دوران ایک مشہور چینی جہاز ران چنگ حہ نے ایک بہت بڑا بحری بیڑا لے کر بحر منجمد جنوبی کے مختلف ممالک اور جزائر کا دورہ کیا۔ وہ تائیوان میں بھی کچھ عرصہ ٹھہرا۔وہ اپنے ساتھ تائیوان کے مقامی باشندوں کے لیے دستکاری اورزرعی پیداوار کا ہانر بھی لے کر گیا تھا۔سولہ سو اٹھارہ میں صوبہ فوجیئن میں شدید خشک سالی اور قحط پڑا تو وہاں سے تقریباً دوہزار باشندے ہجرت کر کے تائیوان پہنچ گئے۔یہ باشندےمختلف بستیوں سے وابستہ اور ماہر لوگ تھے۔انہوں نے وہاں جاکر اپنے کمال فنِ مہارت سے تائیوان میں ترقی کے نئے دور کا دروازہ کھولا۔
تائیوان مغربی نو آبادیاتی نظام کے نشانے پر
تیسری دنیا کی دیگر اقوام اور خطوں کے ساتھ ساتھ جزیرہِ تائیوان بھی مغربی نو آبادیات کی دست برد سے نہیں بچ سکا۔سولہویں صدی کے وسط کے بعد اسپین،پرتگال اور فرانس جیسی نو آبادیاتی طاقتوں نے یکے بعد دیگرے تائیوان پر ناجائز قبضہ جما کر یہاں کے وسائل لوٹنے کی کوششیں کیں۔سولہ سو بیالیس میں ہالینڈ نے شمالی تائیوان میں واقع اسپین کے ٹھکانوں پر قبضہ کیا اور یوں تائیوان اسپین کے ہاتھوں سے نکل کر ہالینڈ کی نو آبادی بن گیا۔ہالینڈ نے بھی مقامی لوگوں پرظلم و ستم کر کے ان کے وسائل لوٹنے کی پوری کوشش کی لیکن تائیوان کے لوگوں نےولندیزیوں کے ظلم و ستم کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔سولہ سو پینسٹھ میں تائیوان کے عوام نے چین کے قومی ہیرو چنگ چھنگ کونگ کی قیادت میں ہالینڈ کے حملہ آور قابضین کو شکست دے کر ان کو جزیرے سے باہر نکال دیا۔چنگ چھنگ کونگ کے انتقال کےبعد ان کے بیٹے چنگ چینگ اور پوتے چنگ کھہ شوانگ نے تائیوان پر بائیس سال تک حکمرانی کی ۔چنگ خاندان کی حکمرانی کے دوران تائیوان میں شکر سازی ،نمک سازی ،صنعت وحرفت، تجارت ،تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں کافی ترقی ہوئی۔
تائیوان کی تاریخ میں چنگ خاندان کے دور کو ترقی کے لحاظ سےسنہرا دور تصور کیا جاتا ہے۔
تائیوان میں چین کی مرکزی حکومت کی دوبارہ حکمرانی
سنہ سولہ سو تراسی میں چھنگ شاہی خاندان کی حکومت نے تائیوان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں وہاں کےحکمران چنگ کھہ شوانگ نے اطاعت قبول کر لی۔اس کے بعد چھنگ شاہی حکومت نے تائیوان میں باقاعدہ سرکاری ادارےقائم کر کے وہاں کا نظم و نسق صوبہ فوجیئن کے ماتحت کر دیا۔یوں عرصہ دراز کے بعد تائیوان دوبارہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہو گیا ۔اس طرح یہ جزیرہ سیاسی،معاشی،سماجی اور ثقافتی لحاظ سے عظیم چینی سلطنت کے اور قریب ہو گیا۔ یوں تائیوان چین کا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا۔
سنہ اٹھارہ سو پچاسی میں چھنگ شاہی خاندان کی مرکزی حکومت نے تائیوان کو باقاعدہ طور پر چین کا صوبہ قرار دیتے ہوئےلیومینگ چھوان کو یہاں کا پہلا گورنر مقرر کیا۔لیو مینگ چھوان نے صوبہ فوجیئن اور گوانگ دونگ کے بہت سے باشندوں کو تائیوان منتقل کر کے آباد کر دیا۔اس دور میں زرعی ترقی،ڈاک و تار ،ریلوے،اسلحہ سازی ،تجارت ،کان کنی اور آراء مشین جیسے شعبوں نے خوب ترقی کی۔لیو مینگ چھوان نے تائیوان کے دفاع کو مضبوط بنایا اور تعلیم کو بھی فروغ دیا۔
تائیوان میں جاپانی تسلط کا دور
انیسویں صدی کے آخر میں جاپان نے سرمایہ درانہ راستہ اپناتے ہوئے خوب معاشی اور فوجی ترقی کی۔ساتھ ہی ساتھ ارد گرد کے جزائر اور سمندروں پر لالچ بھری نظریں ڈالتے ہوئےاپنا تسلط جمانے کی تگ و دو شروع کی۔سنہ اٹھارہ سو چورانوےمیں جاپان نے چین کے خلاف بھی جنگ چھیڑ دی۔اس جنگ میں چین کو شکست کی حزیمت اٹھانا پڑی۔سنہ اٹھارہ سو پچانوے میں چھنگ حکومت نے جاپان کے ساتھ ماگوان نامی معاہدے پر دستخط کئے۔اس معاہدے کے تحت تائیوان اور پھونگ ہو جزائر جاپان کے حوالے کر دیئے گئے۔یوں ایک بار پھر تائیوان نو آبادیاتی نظام بن کر جاپان کے زیر تسلط چلا گیا۔تائیوان پر جاپان نے پچاس سال تک اپنا تسلط قائم رکھا۔جاپان نے اپنے تسلط کے دوران تائیوان کو اپنی زراعت اور زرعی پیداوار کےخام مال کا مرکز بنایا اور یہاں پر فوجی صنعت کو بھی فروغ دیا۔
مادرِ وطن کی آغوش میں آ کر دوبارہ الگ ہونا
انیس سو پینتالیس میں دوسری جنگ عظیم جاپان،جرمنی اور اٹلی پر مشتمل نازی اتحاد کی شکست کی صورت میں اختتام پزیر ہوئی۔جنگ کے بعد امریکہ او ر یورپی اتحادیوں کی زیر سرپرستی کئی ایک بین الاقومی معاہدے عمل میں لائے گئے۔ان معاہدوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ جزیرہ تائیوان چین کا ایک ناقابلِ تردید حصہ ہے۔قبل ازیں یکم دسمبر انیس سو تینتالیس کو امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر دستخط کئے گئے۔قاہرہ اعلامیہ میں فیصلہ کیا گیا کہ جاپان کو منچوریا،تائیوان اور پھونگ ہو کے جزائر کو واپس چین کے حوالے کرنے ہوں گے۔چھبیس جولائی انیس سو پینتالیس کو چین ،امریکہ،برطانیہ اورسویت یونین نے پالٹسڈ یم اعلامیہ جاری کیا جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ قاہرہ اعلامیہ کا نٖفاذ ضرور ہو گا۔
پندرہ اگست انیس سو پینتالیس کو جاپان نے پالٹسڈ یم بیان کی شرائط کو قبول کر تے ہوئے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کااعلان کیا۔اسی سال پچیس اکتوبر انیس سو پینتالیس کو تائیوان کے شہر تائبے میں حکومتِ چین کے سامنے جاپانی فوج کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔یوں ایک بار پھر تائیوان مادرِوطن عظیم چینی سلطنت کی آغوش میں آ گیا۔
تاہم اس وقت چین پر حکمرانی کرنے والی گومین دانگ پارٹی نے غلط پالیسی اپنائی جس سے متنفر ہو کر تائیوان کے باشندوں نے گومین دانگ پارٹی کے خلاف جد وجہد شروع کی۔یکم اکتوبر انیس سو انچاس کو چینی عوام نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں گومین دانگ پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ کر نئے چین کا اعلان کر دیا۔دریں اثناء گومین دانگ پارٹی کے رہانما جیانگ جے شی اور کچھ فوجی اور سیاسی شخصیات نے فرار ہو کر تائیوان میں پناہ لی اور وہاں جا کر امریکہ کی حمایت سے الگ کٹھ پتلی حکومت بنا لی۔اس طرح تائیوان ایک بار پھر چین سے جدا ہو گیا۔
سواد اعظم چین اور تائیوان میں رابطوں کا دوبارہ آغاز
عوامی جمہوریہ چین کی مرکزی حکومت نے انیس سو اناسی میں آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں یعنی مادرِوطن چین اور تائیوان کے درمیان ڈاک،تجارت،جہاز رانی ،ہوا بازی اور دیگر مواصلاتی رابطوں کی بحالی اور براہِ راست تبادلوں کی تجویز پیش کی ۔
گذشتہ تیس برسوں کے دوران چینی حکومت نے اس حوالے سے انتھک جہدوجہد کی۔اس جہدوجہد کے نتیجے میں دونوں اطراف میں براہِ راست رابطوں میں بڑی تیزی سے پیش رفت ہوئی۔نمایاں شعبوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔مواصلاتی رابط
انیس سو ترانوے میں دونوں کناروں کے تعلقات کی ایسوسی ایشن اور آبنائے تائیوان کے تبادلوں کے فنڈ نے ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کی روح سے دونوں خطوں میں ڈاک کے اداروں کے مابین رجسڑڈ سروس شروع ہو گئی۔انیس سو چھیانوے میں تائیوان اور مادرِوطن چین کے درمیان ٹیلی مواصلات کی براہِ راست سروس کا آغاز ہوا۔انیس سو ننانوے میں دونوں کناروں کے درمیان سب میرین آ پٹک فائبر کیبلز آبنائے تائیوان میں سمندر کی تہہ میں بچھائی گئی جس سے ٹیلی مواصلات ،ڈیجیٹل سروس، موبائل اور ویڈیو ٹیلی فون کی سروسز ممکن ہو سکیں۔
2۔جہاز رانی
اپریل سنہ انیس سو ستانوے میں چین کے ساحلی شہروں فوچو،شامین اور تائیوان کی بندر گاہ گاؤ شیونگ کے درمیان تجرباتی طور پر جہاز رانی کا آغاز ہوا۔
3۔ہوا بازی
دسمبر انیس سو پچانوے اور اگست انیس سو چھیانوے میں مکاؤ اورتائیوان ،ہانگ کانگ اور تائیوان کے درمیان پروازوں کا آغاز ہوا۔جشنِ بہاراں کے دوران چینی حکومت نے تائیوان کے تاجروں کے لئےخصوصی پروازوں کی اجازت کی سہولت دی ہوئی ہے۔
4۔تجارت
انیس سو اناسی سے مادرِوطن چین نے تائیوان کی پیداوار اور مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی بالکل معاف کرنے یا نہایت کم سطح پررکھنے سمیت دیگر خصوصی مراعات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔انیس سو اٹھہتر میں مادرِوطن چین اور تائیوان کے درمیان تجارتی حجم کی مالیت صرف چار کروڑ ساٹھ لاکھ امریکی ڈالر تھی۔جبکہ دو ہزار تین میں یہ اعدادوشمار اٹھاون ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق مادرِوطن چین اس وقت تائیوان کی مصنوعات کے لیے دنیا بھرمیں سب سے بڑی تجارتی منڈی بن چکا ہے۔جبکہ تائیوان مادرِوطن چین کی مصنوعات کے لیے دنیا کی دوسری بڑی منڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
5۔سرمایہ کاری
سرمایہ کاری کے شعبے میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ،سرکاری اداروں اور علاقائی خود اختیار حکومتوں نے بڑی فراخدلانہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں تا کہ تائیوان کے ہم وطنوں کے ساتھ براہِ راست سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحو ل فراہم کیا جا سکے ۔چین کی حکومت سنہ دو ہزار تین کے آخر تک چین میں تائیوان کی سرمایہ کاری کے ساٹھ ہزار منصوبوں کی منظوری دےچکی تھی۔قبل ازین انیس سو ترانوے ہی سے چین کی سر زمین تائیوان کے سرمایہ کاروں کے لیے ترجیحی منڈی بنی ہوئی ہے۔
6۔بنکاری کے شعبے میں رابطے
بنکاری،مالیاتی تبادلوں اور تعاون کے شعبوں میں اس وقت بیجینگ اور شنگھائی سمیت چین کے کئی بڑے شہروں میں تائیوان کے دس بنکوں کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں اور دیگر عمل درآمد کے مراحل سے گزر رہے ہیں ۔
7۔چینی باشندوں کے لئے ذاتی حیثیت میں تائیوان کی سیروسیاحت
بارہ جون دوہزار گیارہ کو چین کے قومی بیورو برائے امورِ سیروسیاحت کے سربراہ شاؤچھی وےنے شیامین شہر میں منعقد ہ آبنائے تائیوان کے تیسرے فورم میں اعلان کیاتھاکہ اٹھائیس جون دوہزار گیارہ سے مادرِوطن چین کے باشندے ذاتی حیثیت میں جزیرہ تائیوان کی سیر کر سکیں گے۔اس فیصلے کی روح سے اب چین کے سیاح بیجنگ ،شنگھائی اور شیامین سمیت بیس سے زائد چینی شہروں سے ذاتی حیثیت میں تائیوان سیروسیاحت کی غرض سے جا سکتے ہیں۔
8۔دونوں خطوں کے مابین تعلقات میں گنجائش اور مزید رابطوں کی ضرورت
درج بالا کئی شعبہ جات میں رابطوں میں بہتری کے باوجود دونوں خطوں میں صنعتی،تجارتی،مالیاتی، مواصلاتی،سماجی و ثقافتی اور دیگر شعبہ جات میں ترقی اور تعاون کی مزید گنجائش باقی ہے۔ابھی تک سواداعظم اور تائیوان کے درمیان ڈاک،تجارت ،جہاز رانی اور ہوا بازی کے تبادلے بلواسطہ،یک طرفہ ،نامکمل اور ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مادرِوطن چین اور تائیوان کے درمیان ابھی تک ڈاک سروس کا تبادلہ بدستور ہانگ کانگ اور مکاؤ کے راستے بلواسطہ طور پر کیا جاتا ہے۔مزید براں پوسٹل سروسز کی اقسام بھی محدود ہیں۔جہاز رانی کےشعبے میں مادرِوطن چین اور تائیوان کے درمیان سمندری اور ہوائی جہازوں کا براہِ راست تبادلہ نہیں ہو رہا۔دونوں کناروں کے درمیان سفر کرنے والوں کو بدستور ہانگ گانگ،مکاؤ سمیت دوسرے علاقوں کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔
تجرباتی طور پر کی جانے والی براہِ راست جہاز رانی میں تجارتی اشیاء کی نقل و حمل کی اجازت نہیں دی جاتی تاہم تجارتی شعبےمیں تائیوان کے صنعت کاروں اور اداروں کے لئے چین میں کسی بھی جگہ تجارت کرنے اور سرمایہ لگانے کی کھلی اجازت ہے۔لیکن چینی سرمایہ کاروں، تاجروں اور چینی مصنوعات کے لئے ابھی بھی تائیوان کی منڈیوں تک رسائی کے لیے کافی امتیازی پابندیاں عائد ہیں۔سواد اعظم کے صنعت کار،تاجر اور صنعتی و تجارتی اداروں کو تائیوان میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں ہے۔
امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں چین کا سواد اعظم اور اس کا اٹوٹ انگ جزیرہ تائیوان آپس کے تاریخی رشتوں کو مزیدمضبوط کر کے ایک دوسرے کے قریب تر آ جائیں گے اور نو آبادیاتی نظام اور استعماریت کا پر چار کرنے والی قوتوں کی طرف سے پیدا کی گئی دوریاں گھٹتے گھٹتے ختم ہو جائیں گی۔