​چین میں رشتے انمول ہیں

2018-09-14 14:19:26
شیئر:

 

​چین میں رشتے انمول ہیں

چین میں رشتے انمول ہیں

زبیر بشیر 

چین مشرق میں خاندانی نظام کی مضبوطی کی علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے یہاں ہونے والی سائنسی، معاشی اور مادی ترقی کی داستانیں تو آپ نے بہت سنیں ہوں گی آج ہم چین میں رشتوں کی مضبوطی اور احترام کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں یہ کہانی ہے وانگ مانکی اور اس کی بیوی چاو سن کی لازوال محبت کی

شام کے سائے آہستہ آہستہ گہرے ہو رہے ہیں۔ سورج کچھ ہی دیر میں پہاڑوں کی اوٹ میں چھپنے کو ہے۔ آج بڑے دنوں کے بعد بہت اچھی دھوپ نکلی تھی وہ دھوپ کی تمازت کو اپنے بدن میں سمو لینے کے لئے کافی دیر پہلے اپنے گاوں کے قریب واقع کے اس جھیل کے کنارے آکر بیٹھ گیا تھا۔ وہ بت بنا سامنے پہاڑوں پر پھیلی برف کی سفید چادر کو مسلسل گھور رہا تھا اس دوران نہ جانے کتنے منظر اس کے دماغ کے پردے پر بن اور بکھر رہے تھے۔  اس دوران اس کے ہاتھ مسلسل اون سے بنے ایک تھیلی نما پرس کو سہلا رہے تھے۔ شاید اس وقت یہی وہ پرس تھا جو اس کو سوچوں کے گھوڑے پر سوار کرکے پچھتر برس پرا نے دور میں لے گیا تھا۔

یہ تھا سن 1943 ان کے گاوں میں جشن کا ساماں تھا ہر طرف سے مبارک بادیں وصول ہورہی تھیں اس کا والد  اور والدہ آنے والے مہمانوں کا بڑی خوش دلی سے استقبال کر رہے تھے۔ آج اس کی شادی دن تھا۔ اس دن کی یاد یہ پرس ایک سوئنیر کے طور پر آج بھی اس کے ہاتھ میں موجود تھا۔ یہ شادی والے دن اس کی بیوی نے بطور خاص تحفے میں دیا تھا۔

وانگ مانکھ کی عمر 90 سال ہے اور ان کی دلہن "چھیاو سن" بانوے برس کی ہو چکی ہیں۔ دونوں آج سے 75 برس قبل شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔ چینی رواج کے مطابق دولہا اور دلہن شادی کے روز ایک دوسرے کو تحائف پیش کرتے ہیں۔"چھیاو سن"  نے اپنے شوہر کو ہاتھ سے بنا ہوا ایک پرس تحفے میں دیا ۔ یہ پرس آج بھی وانگ مانکھ نے اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہے۔

​چین میں رشتے انمول ہیں

چین میں رشتے انمول ہیں

محبت کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑتے  اس جوڑے نے واقعی ان رنگوں کو پھیکا نہیں پڑنے دیا۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے ونگ مانکھی کو اس خواب سے بیدار کردیا۔ وہ جلدی سے جھیل کنارے سے اٹھا اور گھر کی جانب چلنے لگا اسے یہ سوچ کھائے جارہی تھی کہ "چھیاو سن"نے اپنی دوا لی ہوگی یا نہیں اس نے دوپہر کا کھانا ٹھیک سے کھا یا بھی ہوگا یا نہیں۔

وہ جانتا ہے کہ "چھیاو سن" کی صحت اب ٹھیک نہیں رہتی۔ اس لئے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے اس کی پسند  کا کھانا بنا تا ہے۔

اس جوڑے نے نہایت سادہ زندگی گذاری ۔ انہوں نے 1947 تک کبھی اکٹھے تصویر تک نہ بنوائی تھی۔  اس کی ضرورت بھی انہیں اس وقت محسوس ہوئی ۔ جب وانگ کا نام فوج میں بھرتی کے لئے درج کر لیا گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ اب ان کے درمیان طویل دوریاں آنے والی ہیں۔  وانگ کہتے ہیں،"میں نے سوچ کر یہ تصویر بنوائی کے اگر میں محاذ سے نہ لوٹا تو کم ازکم میری تصویرتو میری بیوی کے پاس ہوگی اورمیں بھی اپنے مشکل لمحات میں اپنی بیوی کی تصویر دیکھ اپنے اچھے وقت کو یاد کر لیا کروں گا۔"

"چھیاو سن"  جوکہ اپنی زندگی کی بانوے بہاریں دیکھ چکی ہیں کہتی ہیں کہ  ہم نہیں جانتے کہ رومنٹک ہونا کیا ہوتا ہے لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور احترام کرنا کیا ہوتا ہے۔

"چھیاو سن" اس رشتے میں  کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے میں زیادہ حصہ ڈالتی رہی ہیں۔ چھیاوسن ہر سال موسم کے مطابق اپنے شوہر کو نت نئے اور آرام دہ جوتے بنا کر دیتی رہی ہیں اور  وانگ بھی اس دوڑ میں  کہاں پیچھے رہنے والے ہیں انہوں نے اپنی بیوی کی خاطر کھانا پکانا سیکھا اور ان کے لئے ہر خاص و عام موقع پر مزے مزے کے کھانے بنائے۔ وانگ  کو یہ کام اس لئے بھی سیکھنا پڑا کیونکہ اس کی بیوی اب بیمار رہنے لگی ہے اور وہ اس کی خوراک کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا چاہتا ہے۔

​چین میں رشتے انمول ہیں

چین میں رشتے انمول ہیں

ان دونوں کی شادی مقامی رسوم رواج کے مطابق طے پائی تھی لیکن ان دونوں کو افسوس ہے کہ ان کے پاس اپنی شادی کا رجسٹریشن سرٹیفیکٹ نہیں ہے کیونکہ ان کی شادی سن 1950 کی عائلی اصلاحات سے قبل طے پائی تھی۔ ان کے  تین بچے ہیں۔ جن کی اولادوں میں اب چوتھی نسل بھی آنکھ کھول چکی ہے۔ یہ سب لوگ ایک گھر میں رہتے لیکن یہ دنوں میاں بیوی تمام تر راحتوں کے باوجود آج بھی ایک دوسرے کا کام خود کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ سچ ہے کہ سچی محبت کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑتے۔