دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
تحریر: زبیر بشیر
دیوار چین انجینیرنگ کے شاہکار سے بڑھ کر کچھ اور ہے۔ اس کا براہ راست تعلق چین کے درخشاں ماضی کے ساتھ جڑاہے۔ ہزاروں میل دور تک بل کھاتی ہوئی یہ عظیم دیوار دو ہزار سال سے زائد عرصے تک دشمنوں کے سامنے ڈھال بنی بیرونی حملہ آوروں سے چین کی حفاظت کرتی رہی۔ بظاہر یہ دیوار اینٹ، پتھر گارے اور لکڑی سے بنی نظر آتی ہے لیکن دل کی آنکھ سے دیکھنے پر یہ لاتعداد زمانوں میں لاتعداد دیوانوں کی اپنے وطن کی محبت سے گندھی چاہت سے بنی معلوم ہوتی ہے۔ یہ گزشتہ نسلوں کی طرف سے آنے والے نسلوں کے لئے ایک ایسا نایاب تحفہ معلوم ہوتی ہے۔ جو انہیں مصائب ومشکلات سے بچا کر ایک محفوظ مستقبل کی نوید دیتی ہے۔
میں سن 2011 میں بھی چین آچکا ہوں اس وقت بھی دیوار چین دیکھنے کا موقع ملا لیکن بہت ہی تشنگی رہی اور اس حوالے سے اس دیوار پر گزرے چند رسمی لمحات اور ایک تصویر کے علاوہ میرے پاس یاد خزانے میں اور کچھ بھی نہیں ہے۔
دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
اس بار چین آیا تو پہلے دن سے ہی دیوار چین دیکھنے کا مشتاق تھا لیکن دفتری مصروفیات اور چینی زبان سے نابلد ہونا راہ میں حائل ہوتا رہا۔ اب چونکہ میری فیملی بھی چین آچکی ہے تو میں نے بچوں کے ساتھ دیوار چین جانے کا پروگرام بنایا۔ بنیادی معلومات اکھٹا کیں اور موسم کی مناسبت سے ملبوسات کا انتخاب کیا اور دن بھر کے کھانے پینے کا سامان بیگوں میں ڈالا اور ہم دیوار چین کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں عزیز دوست شاکر اللہ کے ساتھ نے بھی سفر کو خوشگوار اور یاد گار بنا دیا۔
دیوار چین کی سیر کے لئے کتنا وقت درکار ہے؟
اس سوال کا جواب تھوڑا سا مشکل ہے کچھ لوگوں کے لئے اس دیوار کی سیر کے لئے ایک دو گھنٹے ہی کافی ہوتے ہیں۔ کچھ کے لئے ایک یا دودن ۔ مجھے اس دیوار پر قدم رکھنے کے بعد یوں محسوس ہوا کوئی ماورائی قوت مجھے چشم زدن میں صدیوں کے سفر پر لے گئی ہو۔ مجھے اس کی ایک ایک اینٹ سے اپنے آباو اجداد کی خوشبو آرہی تھی۔ سینکڑوں ہزاروں برس میری آنکھوں کے سامنے سے بن اور بکھر رہے تھے۔ اتنی بلندی اور عظمت پر پہنچنے کے لئےانسان نے ہزاروں سال شب و روز محنت کی تھی وہ بھی ایک ایسے دور میں جب نہ تو کوئی مشینری تھی اور نہ ہی وسائل کی فراوانی۔
بہرحال اپنے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ دیوار چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر مقامات بھی ہیں۔ جنہیں ایک یا دو روز میں وزٹ کیا جاسکتا ہے۔ دیوار کے پہلو میں موجو د ہوٹلوں میں رات بسر کی جاسکتی ہے اور دیوار پر اترتے چاند کے حسین منظر کو آنکھوں میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
یہاں کیبل کار اور toboggan rides کی مدد سے بھی دیوار کا سفر کیا جاسکتا ہے۔
دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
اس دیوار کے قریب اور بھی کئی قابل ذکر مقامات موجود ہیں جن منگ دور کے بادشاہوں کے مقبرے، مشرق میں چنگ دور کے مقبرے، منگ دور کا گاؤ ں چھوان ڈی شیا اور چنگ دور حکومت کا خوبصورت سمر پیلس جو کہ بیجنگ کے علاقے چھنگ ڈہ میں واقع ہے۔
دیوار چین کتنی لمبی ہے؟
یہ سوال میرے ذہن میں بھی تھا آپ کے ذہن میں بھی ہوگا۔ میں اس کا کوئی قابل تشفی جواب تلاش کرنے میں ناکام رہا لیکن اس حوالے سے ایک وضاحت ضرور مل گئی وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ دیوار مختلف ادوار میں تعمیر ہوئی اور اس دوران وہاں موجود قدرتی ڈھال جیسا کہ دریا اور پہاڑوں کو بھی اس دیوار کاحصہ تصور کیا گیا تھا لہذا مختلف مورخین و ماہرین کے نزدیک اس کی پیمائش میں فرق ہے۔ اس کے علاوہ چینی ریاضی میں پیمائش کی اکائی کے مطابق بھی دیوار کی لمبائی کا ترجمہ کرتے وقت لمبائی بیان کرنے میں فرق آجا تا ہے۔
بہرحال اپنے موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔دیوار چین ملک کے دفاع کے لئے بنائی گئی قلعہ نما دیواروں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ دیوار مشرق میں واقع چینی صوبے لیاؤ ننگ کے بوہائی سمندر سے شروع ہوتی ہے اور خوبصورت پہاڑوں، صحراؤ ں اور سمندروں سمیت چین کے نو صوبوں سے گزرتی ہوئی مغربی صوبے گانسو میں جیا یوگوان پاس کے مقام پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یہ دیوار مختلف چھوٹی دیواروں کو ملا کے بنائی گئی ہے، جس کی لمبائی 6500 کلو میٹر سے کچھ زیادہ ہے۔
تاہم آرکیالوجیکل سروے کے حالیہ سروے کے مطابق مجموعی طور پر منگ دور کی یہ عظیم دیوار، اپنی تمام شاخوں سمیت 8.8518 کلومیٹر (5.5003 میل) تک پھیلی ہے. اس دیوار کی اوسطاً بلندی 7.6 میٹر ( 26 فٹ ) اور چوڑائی 5 میٹر سے زیادہ تقریباً ( 16 فٹ ) ہے۔ چینی لمبائی کے یونٹ لی میں اس کی پیمائش 10 ہزار لی ہے۔ اس دیوار پر 25,000 کے قریب نگرانی کے مینار موجود ہیں۔
دیوار چین کی تاریخ
اس دیوار کو چائینیز زبان کی 100 سال قبل مسیح کی ایک قدیم تحریر میں چانگ چنگ لکھا گیا ہے جس کے معنی ( لمبی دیوار)کے ہیں۔19 ویں صدی عیسوی میں جب مغربی ممالک مختلف علاقے فتح کرتے ہوئے چین پہنچے تو انہوں نے اس کا نام عظیم دیوار چین رکھا.
شمالی چین میں دیواریں تعمیر کرنے کا آغاز آٹھ قبل مسیح میں ہوچکا تھا۔ گو کہ اس دور عمارتیں خال خال ہی نظر آتیں تھیں۔دیواروں کی تعمیر جنوبی چین میں آٹھ قبل مسیح ہی سے شروع ہوگئی تھی۔ چین کو ایک ریاست کی شکل دینے کی حقیقی کاوش چنگ خاندان کے دور حکومت میں 221 سے 206 قبل مسیح دوران میں شروع ہوئی اور یہ کام شہنشاہ چن شی ہوانگ کےدور میں بام عروج پر پہنچا اور دیوار چین حقیقی دفاعی فصیل بن گئی۔
دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
اس دور میں چھوٹی بڑی تمام دیواروں کو جوڑ ایک منظم اور مربوط دیور کی شکل دی گئی۔ ابتدائی دور میں اس دیوار پر ٘مخلتف فاصلوں پر بڑے بڑے مینار یا ٹاور تعمیر کئے گئے جنہیں آپ آج کے دور کے واچ ٹاور بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان ٹاورز پر ہر وقت نگران موجود رہتا ۔ یہ نگران کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں دوسرے ٹاروز کی جانب سگنل بھیجتے۔ یہ سنگل یا اشارے جھنڈا لہرانے ، دھواں چھوڑنے یا گن پاؤڈر کی مدد سے دھماکےکی آواز پید ا کرنا ہوتے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا تھا۔
آج نظر آنے والی دیوارِ چین کا بڑا حصہ منگ سلطنت (1368ءسے 1644ء) میں تعمیر کیا گیا۔ اگرچہ قدیم دور میں اس دیوار کا مقصد چین کو سلطنت منگولیہ کے حملوں سے بچانا تھا لیکن بعد میں اس دیوار نے ایک مشہور ترین سیاحتی مقام کی حیثیت اختیار کرلی اور آج بھی لاکھوں سیاح ہر سال اسے دیکھنے کے لئے چین کا رخ کرتے ہیں۔
کیا دیوار چین کو خلا سے دیکھا جا سکتا ہے؟
ہم دیوار چین کی سیر کو روانہ ہوئے تو میں نےراستے میں بڑے زور شور سے اپنی بیگم اور بچوں کو دیوار چین کی معلومات بہم پہنچانا شروع کیں اور زور خطابت میں یہاں تک بتاد یا کہ یہ دیوار خلا سے بھی دیکھی جاسکتی ہے اور یہی نہیں نیل آرمسٹرانگ نے چاند سے زمین کی جانب دیکھا تو وہ جس چیز کو واضح طور پر دیکھ پایا وہ دیوار چین تھی۔ میرے اس جملے پر میری بیگم اور بچے مسکرانے لگے میں ذرا سا جھیمپ گیا۔ میری بیگم نے اردو سائنس بورڈ کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ محض دیوار چین کی طوالت اور حجم سے مرعوب ہوکر بعض مغربی سیاحوں کی جانب سے مشہور کی گئی بات تھی۔ تو جناب دیوار چین مریخ یا چاند سے بالکل نظر نہیں آتی۔
دیوار چین۔۔۔۔سچے جذبوں سی حسین
تحریر دیوار چین کی طرح لمبی نہ ہوجائے لہذا یہیں آپ سے رخصت چاہتا ہوں ۔ لیکن دیوار چین کے حوالے سے ابھی بہت کچھ شئیر کرنا باقی ہے۔