چین میں آج کل ساتویں قومی مردم شماری کا سلسلہ جاری ہے۔ تقریباً ۷ لاکھ ارکان پر مشتمل عملہ رجسٹریشن کے اس کام کی تکمیل کے لیے گھر گھر جا کر معلو مات اکٹھی کررہا ہے۔اس سال پہلی بار ، جمع کی گئی تمام معلومات کو انٹرنیٹ کے ذریعے پُر کیا جارہاہے اور ممکنہ انسانی غلطی کے امکان کو ختم کرتے ہوئے "رئیل ٹائم " میں قومی ڈیٹا بیس پر براہ راست اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے بھی بذاتِ خود مردم شماری کے عملے کو فارم میں درج سوالات کے جوابات دیئے۔ عملے کا ایک رکن ٹیبلٹ پر ان کی معلومات درج کرتا گیا اور آخر میں ان کے دستخط لیے ۔ یہی وہ طریقہ ہے کہ جو مردم شماری کے لیے اختیار کیا گیا ہے اور چینی صدر نے اس پر عمل کر کے اس کام کی اہمیت کا پیغام عوام تک پہنچایا ہے۔
اس وقت جب دنیا بھر میں چین کے پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں سے حاصل کردہ نتائج مرکزِ نگاہ ہیں ایسے میں مردم شماری کا یہ عمل اور بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ صدر شی جن پھنگ نے بھی اعلی و معیاری ترقی کےلیے مردم شماری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کا حامل ملک ہے اور آبادی کا معاملہ ہمیشہ ہی ایک سٹریٹیجک حیثیت کا حامل رہا ہے ۔ انہوں نے ترقیاتی عمل سے متعلق پالیسیاں بنانے میں گزشتہ مردم شماری کے اہم کردار کی بھی تعریف کی ہے۔
اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جب تک وسائل اور آبادی کے حوالے سے درست اعدادو شمار نہیں ہوں گے کوئی بھی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہو گی۔ روزمرہ زندگی کے معمولات کو مثال بنائیں تو اس بات کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے ۔ ٘مثال کے طور پر ہم کسی کے گھر مہنے بھر کا راشن پہنچانا چاہتے ہیں مگر ہمیں افرادِ خانہ کی درست تعداد معلوم نہیں تو ہم اپنے بجٹ کے مطابق اندازے سے خریدار ی کر کے اشیا ان تک پہنچاتے ہیں مگروہاں جا کر ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس گھر میں چار نہیں سات لوگ ہیں جن میں دو چھوٹے بچے بھی ہیں اور ہمیں چونکہ ان بچوں کے متعلق علم نہیں تھا لہذا ان کے لیے دودھ یا پھل ہمارے سامان میں شامل نہیں ، ساتھ ہی ان بزرگ کا بھی ہمیں نہیں علم تھا کہ جن کے لیے طاقت کی ادویہ چاہیے تھیں اور وہ بھی ہمارے سامان میں نہیں ہیں ۔ اب اس گھر کے لیے ہمارےمخصوص بجٹ میں اور گنجائش بھی نہیں ہے اور یہاں پر ، معلومات کی کمی کے باعث تین افراد خوراک میں سےاپنا حصہ نہیں حاصل کر پائے ہیں ۔ بالکل یہی معاملہ حکومت کی پالیسی سازی کے وقت ہوتا ہے کہ جب تک اس کو ہر علاقے میں موجودافراد ، ان کی عمر ان کی ضروریات کا علم نہیں ہو گا تب تک وہ اس علاقے کے لیے صحت وتعلیم کی سہولیات ، نوجوانوں کی تعداد کے حساب سے روزگار کے منصوبے وہاں کی ضروریات کے مطابق شروع نہیں کر سکے گی ۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے اب تک چھ مرتبہ مردم شماری ہو چکی ہے ۔انیس سو نوے کے بعد ہر دس سال بعد کی جانے والی یہ مردم شماری آنے والے سالوں کے لیے ترقیاتی منصوبہ بندی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج جب چین غربت کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے پیچھے ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق وسائل کی فراہمی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ ہر علاقے کے وسائل کو اس کی آبادی کے حساب سے تقسیم کرنا اور جہاں کمی بیشی ہو اس کواس طرح پورا کرنا کہ تمام صوبے ،تمام علاقے ،تمام قومیتیں ایک پر سکون اور معیاری زندگی کا لطف اٹھائیں۔ اس کے لیے تسلسل کے ساتھ جاری مردم شماری کا یہ عمل منصوبہ سازوں کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ مردم شماری مستقبل کے ترقیاتی عمل کے لیے اہداف طے کرنے اور ترقی کے سفر کو ایک نئی جہت دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے اور اسی کی بنیاد پر آنے والے سفر کا آغاز طے کیا جائے گا ۔