۱۵ نومبر کو پندرہ ممالک نے ویڈیو کانفرنس میں تاریخی علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس موقع پر چینی وزیر اعظم لی کھہ چھیانگ نے کہا کہ آر سی ای پی پر دستخط کثیرالجہتی اور آزاد تجارت کی فتح ہے۔ اجلاس میں شریک دیگر ممالک کے رہنماؤں نے بھی لی کھہ چھیانگ سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔
ایشیائی ذرائع ابلاغ نے آر سی ای پی کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاہدے سے علاقائی معاشی اور تجارتی تعاون کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کے علاوہ پورے خطے کو بھی فائدہ ہوگا۔
تاہم ، بعض مغربی ذرائع ابلاغ آر سی ای پی کو صرف چین سے منسوب کر نے کی کوشش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس کا مقصد ایشیاء میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے ۔ یہ ذرائع ابلاغ چین کو آر سی ای پی کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والاقرار دے رہے ہیں ۔وہ اس معاہدے کو جغرافیائی سیاسی عینک سے دیکھ رہے ہیں جہاں وہ چین کی موجود گی اور امریکہ کی عدم موجود گی کو محسوس کررہے ہیں ۔ اس طرح کے نقطہ نظر سے مذکورہ ذرائع ابلاغ پورے خطے کے لئے آر سی ای پی کی بھرپور اور حقیقی تعمیری پوٹینشل کو نظرانداز کررہے ہیں اور اکیسویں صدی میں دنیا کے ساتھ چین کے تعامل سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں۔
یا د رہے کہ آر سی ای پی کی شروعات آسیان نے کی تھی۔ چین ، جاپان ، جنوبی کوریا ، بھارت ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ بھارت نے نومبر 2019 میں مذاکرات کے آخری لمحے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ ایشیاء پیسیفک کے خطے میں امریکہ کے کئی بڑے اتحادی اس معاہدے میں شریک ہیں ، اسلئے یہ کہنا غلط ہے کہ چین کا آرسی ای پی یا آسیان پر غلبہ ہے۔ پھر بھی ، بعض امریکی اور مغربی اشرافیہ چین کو آر سی ای پی کا سب سے بڑا فاتح قرار دے رہے ہیں۔
ان لوگوں کا ایسا کہنا غلط ہے کہ ہر اس چیز یاکام کی مخالفت کرنا جس میں چین کانام آتاہو تعصب کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک آرسی ای پی کا تعلق ہے چین کے علاوہ اس کے چودہ رکن ممالک ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف چین نہیں آرسی ای پی کے تمام ممبر ممالک اس کے فاتح ہیں اور اس میں سب کی جیت ہے کیونکہ ان ممالک نے یہاں تک پہنچنے کیلئے گزشتہ آٹھ سالوں کے مذاکرات کے دوران اپنے مفادات کے لئے کوششیں کی ہیں۔
چین کی ترقی کا بنیادی طریقہ کار شروع سے یہی رہا ہے کہ وہ سب کی فائدے کی بات کرتاہے اور سب کی جیت کی بات کرتاہے۔ چین برابری ، تعاون ،کھلے رویے اور تمام ممالک کے ترقیاتی راستے کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ باہمی مفاد کیلئے آگے بڑھتاہے ۔ اسی وجہ سے چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ موثر اور باہمی مفید انداز میں تعاون کرنے میں کامیاب رہا ہے ، جس سے بین الاقوامی تعلقات میں پرانی جغرافیائی سیاسی سمت سے ایک بڑا قدم آگے بڑھنے کا اشارہ ملتا ہے۔
مفادات کے عالمی نقشہ کو اب اثر و رسوخ کی بنیاد پر پینٹ نہیں کیا جاسکتا۔ خودمختاری اور تکنیکی ترقی نے مختلف ممالک کیلئے دنیا کے مختلف حصوں میں ترقی کے نئے ذرائع اور مواقع تلاش کرنا ممکن بنایا ہے۔ سلامتی کے خطرات میں عمومی کمی سے معاشی مفادات زیادہ نمایاں ہو گئے ہیں اور تمام ممالک اپنے قومی مفادات میں معاشی اور معاشرتی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں۔
آر سی ای پی ایک کھلا اور باہمی فائدہ مند تعاون کا نظام ہے جس سے پورے خطے کے 2.2 بلین آبادی کو فائدہ ہوگا۔ اس سے بیرونی معاشی ماحول کو بہت وسیع کیا گیا ہے جس سے سب کیلئے ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہوگئے ہیں۔ آر سی ای پی سے کثیرالجہتی کی جیت ہوئی ہے ۔ اس نے ثابت کردیاہے کہ باہمی تعاون کا راستہ ہی جیت جیت کا راستہ ہے، چین ہمیشہ اس راستے پر گامزن رہاہے اور مستقبل میں بھی گامزن رہے گا۔