امریکہ نے حال ہی میں " اوپن سکائس ٹریٹی " سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ رائے عامہ کا خیال ہے کہ امریکہ عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح ادا نہیں کرے گا ۔ امریکہ کے حالیہ یکطرفہ اقدامات نے بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور الجھنوں کے شکار عالمی معاشرے میں مزید غیر یقینی صورتحال کا اضافہ کردیا ہے۔ اور اس سے اسلحہ کے کنٹرول کے موجودہ عالمی انتظامات کو مزید نقصان پہنچے گا۔
یہ معاہدہ ، جس پر 1992 میں دستخط ہوئے تھے 2002 میں نافذ العمل ہوا تھا اور دستخط کنندگان کو ایک دوسرے کے علاقوں پربلا تفریق غیر مسلح پروازیں کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ فوجی سرگرمیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرسکیں اور باہمی افہام و تفہیم اور اعتماد کو بڑھایا جاسکے ۔ سرد جنگ کے بعد کے دور میں روس اور نیٹو ارکان نے اس معاہدے کے تحت سن 2019 تک ، 1500 پروازیں انجام دی تھیں ۔
اس معاہدے کو بڑے پیمانے پر اسلحے کے کنٹرول کے عالمی نظام کے ایک موثر حصے کے طور پر دیکھا
جا تاہے ، اور کئی سالوں سے اس معاہدے کو یورپی سلامتی میں اضافے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے امریکہ کے مذکورہ فیصلے پر روسی وزارت خارجہ نے رد عمل کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا یہ غیر ذمہ دارانہ فیصلہ خود امریکہ ، یورپی ممالک اور اس کے اتحادیوں کی سیکیورٹی کے تحفظ کو نقصان پہنچائے گا ۔ درں اثنا جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے امریکہ کے " اوپن سکائس ٹریٹی " سے نکلنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی نے اس معاہدے کے حوالے سے اپنا موقف نہیں بدلا ہے۔ جرمنی اس معاہدے کو اسلحے پر قابو پانے کے نظام کا ایک اہم حصہ سمجھتا ہے ۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے دنیا کے تحفیف اسلحہ کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کارروائی کی ہے۔ اس سے قبل امریکہ انٹرمیڈیٹ رینج میزائل معاہد ے کو چھوڑنے سے لے کر تحفیف اسلحہ کے نئے معاہدے کی مدت کو توسیع دینے پر ہچکچاہٹ کا اظہار کر چکا ہے ۔ امریکہ نے عالمی اسٹریٹیجک توازن اور استحکام کے حصول کے لئے بین الاقوامی برادری کی ٹھوس کوششوں کو بار بار نقصان پہنچایا ہے ۔
حالیہ برسوں کے دوران ، امریکہ پیرس موسمیاتی معاہدے اور ایران جوہری معاہدے سمیت یکے بعد دیگرے بین الاقوامی معاہد وں اور عالمی تنظیموں سے الگ ہو گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ اپنے مفادات کو دنیا کے مشترکہ مفادات سے پہلے رکھا جائے ۔ گزشتہ سالوں میں امریکہ سلسلہ وار اقدامات کے ذریعے اپنی بالا دستی اور اپنے اپ کو مرکز بناتے ہوئے یکہ طرفہ پسندی پر مبنی ایک غیر ذمہ دارانہ بڑے ملک کی حیثیت سے اپنے فرائض سے کوتاہی برتنے کا واضح ثبوت ہے ۔
آج کی دنیا ایک کھلی دنیا ہے۔کسی بھی ملک کے لئے تنہا ہو کر ترقی کرنا اور بین الاقوامی تبادلے کو مستحکم کرنے اور جدید تجربے، جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ عالمی برادری کو امید ہے کہ امریکہ ، " امریکہ فرسٹ " کے تصور کو چھوڑ کر یک طرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی اپنی غلط روش کو ترک کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ ترقی کی درست راہ پرگامزن ہو گا ۔