کثیرالجہتی اور عالمگیریت سے فرار اختیار کرنے والے خود کو تنہا کر رہے ہیں، سی آر آئی اردو کا تبصرہ

2020-11-25 18:14:42
شیئر:

کثیرالجہتی اور عالمگیریت سے فرار اختیار کرنے والے خود کو تنہا کر رہے ہیں، سی آر آئی اردو کا تبصرہ

دنیا میں کووڈ-19 کی وبا اب بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ بنی نوع انسان کو اس وقت موجودہ صدی کی بدترین وبائی صورت حال  کا سامنا ہے ، عالمی معیشت 1930 کی دہائی کے گریٹ ڈیپریشن  کے بعد بدترین کساد بازاری کا شکار ہے۔ تیزی سے سنگین ہوتے ان عالمی بحرانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ یہ اور اس سے جڑے دوسرے سوالات دنیا کے سنجیدہ حلقوں کو مضطرب کئے ہوئے ہیں۔ ان سوالات کا جواب چین کی جانب سے حالیہ دنوں عملی صورتوں میں پیش کیا جا چکا ہے۔ چین کے مطابق بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہئے ، اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لئے عملی اقدامات  اختیار کرنے چاہییں۔ کثیرالجہتی کی راہ پر  قائم رہتے ہوئے کووڈ-۱۹ کے چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔

تاہم چند ممالک مشکل کے اس وقت میں تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی کی راہ اختیار کررہے ہیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔ عالمگیریت اور کثیر الجہتی ایسے تاریخی رجحانات ہیں جن کی افادیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ اس کی مثال ہم نے اس ماہ کے شروع میں منعقد ہونے والی تیسری چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکپسو کے موقع پر دیکھی جہاں امریکی حکومت کے چین سے "ڈی کپلنگ" کےسیاسی نعروں اور تجارتی جنگ کے باوجود امریکی اداروں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس نمائش میں کمپنیوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ کا تیسرا اور مصنوعات کی تعداد کے لحاظ سے پہلا نمبر تھا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی کاروباری حلقے چین کی پالیسیوں پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ کثیر الجہتی اور عالمگیریت کی حمایت کرتے ہیں۔

اس ماہ کے وسط میں جامع علاقائی اقتصادی شراکت داری معاہدے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے پرآسیان کے دس رکن ممالک، چین ،جاپان، جنوبی کوریا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیانے دستخط کیے۔ اس طرح بڑی آبادی،  رکن ممالک کی تعداد کے لحاظ سے بڑے ڈھانچے اوردنیا میں ترقی کی بڑی صلاحیت اور گنجائش کے ساتھ آزاد تجارتی زون باقائدہ طور پر وجود میں آگیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف گزشتہ بیس سالوں میں مشرقی ایشیا کے اقتصادی انضمام کے سفر میں ایک بہت اہم کامیابی ہے بلکہ دنیا کیلئے بھی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے نہ صرف علاقائی ممالک کی جانب سے کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کی حمایت کیلئے مضبوط عزم کا اظہار ہوتاہے بلکہ اس بات کو ثابت کرتاہے کہ کھلے تعاون سے ہی تمام فریقوں کا باہمی مفاد اور جیت۔ جیت وابستہ ہے

وبا نے سرحدوں اور سیاسی سوچ سے بالا تر ہو کر عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کو ایک بہت بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی پیش گوئی کے مطابق  عالمی معیشت رواں سال 4.4 فیصد سکڑ جائے گی ، اور ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اور ترقی پزیر ممالک کی شرح نمو 60 سالوں میں پہلی بار منفی زون میں داخل ہو جائے گی۔ عالمی نظام صحت  بھی وبا کے سامنے لڑکھڑا رہا ہے، گورننس ،اعتماد ، ترقی اور امن کے سلسلے میں نقصانات مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

وبا سمیت موجودہ چیلنجز  پر قابو پانے کے لیے مشترکہ طور پر یکجہتی اور ہم آہنگی کو آگےبڑھانے کی ضرورت ہے۔  وہ ممالک جو  کثیرالجہتی اور عالمگیریت سے فرار اختیار کر رہے ہیں ، حقیقت میں وہ  خود کو تنہا کر رہے ہیں۔