امریکی جنرل سروس انتظامیہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کی ہے۔ اسی روز، بائیڈن نے یورپی یونین اور نیٹو کے رہنماؤں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی ، جس میں باہمی تعلقات کو مزید گہرا اور بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اسے یورپ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی ایک امریکی کوشش سمجھا گیا ہے۔ کچھ میڈیا نے تو یہاں تک تبصرہ کیا کہ امریکہ اور یورپ کا "ہنی مون " لوٹ آئے گا۔کیا یہ پیشگوئی درست ثابت ہو گی؟ شاید ڈنمارک کے خلاف امریکی جاسوسی اسکینڈل کے حالیہ ہنگامے سے بیرونی دنیا ایک جھلک ضرور دیکھ سکتی ہے۔یاد رہے کہ جب ڈنمارک 2015 سے 2016 کے درمیان نئے لڑاکا طیاروں کی خریداری پر غور کر رہا تھا ، تو امریکی قومی سلامتی ایجنسی ایف بی آئی نے ڈنمارک کے ساتھ اپنے خصوصی انٹیلی جنس تعاون کے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈنمارک کی وزارت خارجہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جاسوسی کی ۔اس کے علاوہ ، امریکی خفیہ ایجنسیوں نے بولی میں حصہ لینے والی دو یورپی عسکری کمپنیوں کے بارے میں خفیہ معلومات بھی جمع کیں۔ بلاآخر ، امریکی لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کے تیار کردہ ایف 35 جنگی طیارے نے بولی جیت لی۔اندرونی ذرائع کے مطابق ، امریکہ سویڈن ، جرمنی ، فرانس ، ناروے اور ہالینڈ کی بھی نگرانی کرتا آیا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ برطانوی بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار ٹام فوڈی نے حال ہی میں علانیہ ایک مضمون لکھا ، "یورپ کو اصل خطرہ واشنگٹن سے ہی ہے۔"ظاہر ہے بالادستی کا پیروکار امریکہ ، ایک طویل عرصے سے اپنے شراکت دار ملکوں کی نگرانی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے ۔یورپی ممالک جو ایک طویل عرصے سے ایسے امریکی گھاو برداشت کرتے آ رہے ہیں ،کیا امریکہ ان کا مداوا کر سکے گا ؟ لوگوں نے دیکھا ہے کہ یورپی عوام کی رائے میں ٹرانس اٹلانٹک شراکت داری کے بارے میں ، مایوسی ،مدافعانہ یہاں تک کہ امریکہ سے ہوشیار رہنے کی آوازیں بڑھ رہی ہیں ۔چند یورپی میڈیا نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ نو منتخب امریکی رہنما دفاعی اخراجات سمیت دیگر امور کے حوالے سے نیٹو اتحادیوں پر دباؤ بڑھائے گا۔اس صورتحال میں امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود بھی ، یورپ اور امریکہ کے تعلقات ماضی کے سنہرے دور میں نہیں لوٹ سکیں گے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لے ڈریان نے واضح کیا کہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں کوئی بھی دوسرا یورپ کی قیادت نہیں کر سکتا ہے، یورپ کو اپنی خود مختاری مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔