اردو میں ایک کہاوت ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا ، دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آجاتا ہے ۔ یہ کہاوت اس وقت کچھ مغربی ممالک پر پوری اترتی ہے ۔وہ مغربی ممالک جنہوں نے چین کے سنکیانگ خود اختیار علاقے کے امور کو موضوع بحث بنایا ہوا ہے اور زمینی حقائق کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کیے بغیر یا ان کی تصدیق کیے بغیر وہ صورتِ حال کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر مسلسل " انسانی حقوق کی پامالی" کا نام نہاد پراپگینڈہ کر کے چین کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں ۔ ان جھوٹی کہانیوں کو بیان کرتے ہوئے وہ خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار اور قانون کی حکمرانی اور انصاف و مساوات پر مبنی معاشرے کے داعی ظاہر کرتے ہیں ۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے ۔
حالیہ عرصے میں امریکی حکومت نے چین کے خلاف باقاعدہ ایک پراپگینڈہ مہم چلائی ، سنکیانگ کے ماضی کو جانے بغیر ، ان تکلیف دہ حالات کا ادراک کیے بغیر کہ جب دہشت گردی نے سنکیانگ کے عوام کی زندگیوں کو بے یقینی سے دوچار کیا ہوا تھا ، ان ممالک نے امن و امان کے قیام کی خاطر چینی حکومت کے اقدامات کو ظلم قرار دیا ، زمینی حقائق اور سنکیانگ کی بدلی ہوئی صورتِ حال ، عوام کے بہتر معیارِ زندگی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جھوٹی کہانیاں بنائیں اور دنیا کو چین سے بد گمان کرنے کی کوشش کی ۔
بہت سے ممالک امریکہ کے ہم آواز ہوئے تاکہ چین پر دباو کو بڑھایا جائےمگر ہوا کچھ یوں کہ ان ہی ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ناصرف عالمی برادری نےسوالات اٹھائے بلکہ ان کے اپنے عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے بھارت کے دلی میں ہونے والے فسادات ہوں یا امریکہ میں سیاہ فاموں پر ہونے والے مظالم ،فرانس میں ہونے والے مظاہرے ہوں یا قانون نافذ کرنے کے نام پر ان ممالک میں ہونے والا تشدد ،یہ ہماری آنکھوں کے سامنےرونما ہونے والے واقعات ہیں، لیکن اپنی چھاچھ کو کوئی کھٹا نہیں کہتا ۔
حالیہ دنوں آسٹریلیا نے چین پر اپنے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے کا الزام لگا کر منافقت کو ایک نیا ہی رنگ دیا ہے ۔ آسٹریلیا چین پر الزام تراشی کرتا آیا ہے کہ چین نے ویغوروں کو "نظربند " کیا ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ چینی حکومت نے دہشت گردی کی وارداتوں کا انسداد کرکے سنکیانگ میں بسنے والوں کی جانوں کو محفوظ بنایا ہے اور ان کے روزگار کے لیے ماحول کو بہتر کیا ہے ۔دوسری طرف ، آسٹریلیا کی حکومت نے افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم کو تسلیم کیا ہے۔آسٹریلیا کے فوجی حکام نے 2012 سے 2013 کے درمیان افغانستان میں ، نہتے معصوم افراد کو قتل کرنے پر جنگی جرائم کے تحت 39 فوجیوں پر الزامات عائد کیے ہیں ۔ یہ جرائم آسٹریلیا کی فوجیوں کی شقی القلبی اور " انسانی حقوق" کا احترام نہ کرنے کا واضح ثبوت ہیں ۔ ان گھناونے جرائم کی اطلاع کسی دوسرے ملک نے نہیں دی ، نہ ہی کوئی فرضی کہانیاں سنائی گئی ہیں بلکہ یہ اطلاع آسٹریلوی ذرائع ابلاغ نے دی ہے اور آسٹریلیا کی وزارت دفاع کی تحقیقاتی رپورٹ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ آسٹریلوی دفاعی فورس کے کمانڈر کیمبل نے ایک خصوصی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کو پیش کیا ۔ رپورٹ میں ان گھناونے جرائم کی جو تفصیلات بتائی گئیں وہ ناقابلِ یقین اور بے حد تکلیف دہ ہیں ۔ ان میں افغان مردوں اور لڑکوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے گولیاں ماردینا ، آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے گلے کاٹنا شامل ہیں ۔ دو چودہ سال کے معصوم افغان لڑکوں کے گلے کاٹ کر انہیں دریا میں پھینکا گیا ۔ ان کی حیوانیت دیکھیے کہ نئے فوجی نشانے بازی کی مشق کے لیے جنگی قیدیوں کو گولیاں مارتے رہے ۔ کیا یہ سلوک انسانیت کے زمرے میں آتا ہے؟ آسٹریلیا کے ان وحشیانہ جرائم کی عالمی برادری نے شدید مذمت کی ہے۔لیکن جب چین نے آسٹریلیا کے ان جرائم کے بارے میں بات کی تو آسٹریلوی وزیر اعظم نے سخت ردِ عمل دیا ۔ان کے خیال میں یہ آسٹریلیا کا داخلی معاملہ ہے ، تو کیا چین کے سنکیانگ کے معاملات چین کے داخلی معاملات نہیں ہیں ؟ کیا ہانگ کانگ کے معاملات بھی چین کے داخلی معاملات نہیں ہیں کہ جن پر آسٹریلیا کی جانب سے مسلسل بیان بازی کی جاتی رہی ؟ کیا آسٹریلیا کے خیال میں اس کے فوجیوں کاافغانستان میں بے گناہ شہریوں کو مارنا جائز ہے ؟ اور اس قبیح عمل کی مذمت غیر معقول ہے؟ آسٹریلیا کو احساس ہونا چاہیے کہ " انسانی حقوق" اس دنیا میں بسنے والے ہر " انسان " کے لیے ہیں ، افغان عوام کی زندگی بھی زندگی ہے۔ آسٹریلوی حکومت کو چاہیےکہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں ، افغان عوام سے سرکاری طور پر معافی مانگیں ، اور عالمی برادری سے وعدہ کریں کہ اس خوفناک جرم کا ارتکاب پھر کبھی نہیں ہوگا۔بجائے اس کے کہ وہ ان ممالک کے خلاف بیانات دیں جو ان کے اس عمل کی مذمت کر رہے ہیں ۔