غربت کے خاتمے کے بعد ، چین کی نظریں اب کس ہدف پر ہیں ؟ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

2020-12-03 15:21:40
شیئر:

غربت کے خاتمے کے بعد ، چین کی نظریں اب کس ہدف پر ہیں ؟ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

رواں سال چین میں غربت کے خاتمے کا سال ہے ۔ درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوٗے مربوط حکمت عملی کے تسلسل کے باعث چین نے اپنے عوام کو ایک آسودہ اور خوشحال زندگی سے روشناس کروایا ہے۔ مقررہ مدت سے دس سال پہلے ہی چین نے اس ہدف کی تکمیل کر لی ، اب اس سے آگے کیا؟

 اس سے آگے کا مرحلہ ترقی کی نئی منازل کی جانب بڑھنے کی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے۔ ترقی کے اس سفر میں پہلے سے زیادہ باشعور اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہو گی ۔اسی لیے اب اگلا مرحلہ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی نظام کو پہلے سے مزید بہتر بنانے کا ہے۔ پہلے تو شاہراہوں کی تعمیر ، بنیادی تنصیبات کے ان علاقوں تک پہنچنے اور انٹرنیٹ کی سہولت سے زراعت و مویشی بانی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنایا گیا ،پھر طبی سہولیات یہاں تک پہنچیں تو جسمانی صحت بھی بہتر ہوئی اور اب مرحلہ ہے صحت مند اذہان کی آبیاری کا ۔ چین کے دیہی علاقوں میں اس حوالے سے مالی مدد فراہم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں بہتری لائی جا رہی ہے ۔اس وقت خاص طور پر  جنوب مغربی چین کے تبت خوداختیار خطے میں نو ملین افراد کے لیے ، مفت تعلیم ، خوراک اور تعلیمی مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہاں اب  زندگی کا رخ بدل چکا ہے۔  چونکہ اس سال موسم خزاں کے سمسٹر میں تعلیم کے لیے مالی اعانت میں اضافہ ہوا ہے ، اس وجہ سے اسکول میں دیا جانے والے کھانے کا معیار بھی  پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔  لیکن اس سہولت کے فوائد عمدہ کھانے کی میز سے بہت آگے کے ہیں۔ ۔تبت خودمختار خطے کے لیے مالی اعانت کی ترجیحی تعلیمی سبسڈی پالیسی سےشہری علاقوں کے مالی طور پر کمزورطلبا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس میں ان کی ٹیوشن فیس سمیت پری اسکول سے لے کر سینئر ہائی اسکول تک خوراک اور سٹیشنری کا تمام انتظام شامل ہے ۔ مطلب والدین کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں اور باقی تمام معاملات کی طرف سے بے فکر ہو جائیں۔

غربت کے خاتمے کے بعد ، چین کی نظریں اب کس ہدف پر ہیں ؟ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

مقامی محکمہ تعلیم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ، اس علاقے میں اسکول سالانہ4،200 یوآن فی کس  کی سبسڈی فراہم کرتے ہیں  جو 1985 کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہے۔

 چینی حکومت ، اب تک ، اس خطے میں تعلیم کی مفت فراہمی کے  پروگرام میں تعاون کرتے ہوئے 20 ارب یوآن سے زائد رقم  خرچ کر چکی ہے ، جس کی وجہ سے تقریبا نو ملین طلباء کے لئے تعلیم تک رسائی کو ممکن اور سہل بنایا گیا ہے ۔

1951 میں یہاں ، اسکول جانے والے بچوں کے داخلے کی شرح دو فیصد سے کم تھی جبکہ ناخواندگی کی شرح 95 فیصد تک تھی۔آج ، خطے میں مجموعی طور پر طلباء کے اندراج کی شرح کے اعداد و شمار حاصل  کردہ کامیابیوں کے عکاس ہیں ۔ ان اعدادو شمار کے مطابق ،   تبت میں اب پری اسکول میں 84.42 فیصد طلبا زیر تعلیم ہیں۔  پرائمری اسکول میں99.71 فیصد ، ، سینئر ہائی اسکول میں 86.62 فیصد اور کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا 47.65 فیصد ہیں ،

یونیورسٹیوں میں تبت سے آنے والے طلباء کی تعداد 2012 میں 33،000 سے 15 فیصد بڑھ کر 2019 میں 38،000 ہوگئی جبکہ مڈل اسکولوں کی تعداد اسی عرصے میں 17 فی صد بڑھی۔

 آج کی اور آنے والی نسل کے طلباء کے لئے ، تبت کی تعلیمی پالیسیاں ،حقیقی معنوں میں ، "زندگی بدل رہی ہیں۔"

غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنا بھی آسان کام نہیں تھا ، لیکن اس ہدف کو حاصل کرنا اور لوگوں کو واپس غربت کی کھائی میں نہ گرنے دینا ایک اور مرحلہ ہے۔ جس کے لیے چینی حکومت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  ، تعلیم اور ہنر کے فروغ کواہمیت دے رہی ہے تاکہ آنے والے تیز رفتار دور اور ترقی کی نئی منازل کی طرف بڑھنے کے لیے چینی نوجوانوں  کی ذہانت اور ان کی صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کیا جائے۔