اس وقت کئی ممالک نے کووڈ ۔۱۹ کی ویکسین بڑے پیمانے پر اپنے عوام کو دینا شروع کردی ہے۔ تاہم اس موقع پر ایک مرتبہ پھر امیر اور ترقی یافتہ ممالک اپنی فکر کررہے ہیں اور دنیا کے غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک نظر انداز ہورہے ہیں ۔ یہ صورتحال ان لوگوں اور ممالک کیلئے پریشان کن ہے جو انسانی مساوات اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح کی فکر کرتے ہیں۔
آکسفیم سمیت کئی بین الاقوامی خیراتی اداروں کے ایک گروپ نےویکسین کی تقسیم اور حصول کے وقت امیر اور غریب ممالک کے مابین تفریق میں اضافہ سے خبردار کیا ہے ۔گروپ کے مطابق ویکسین کے حصول کی دوڑ میں ترقی پذیر ممالک پیچھے رہ گئے ہیں ، جبکہ امیر ممالک درکار مقدار سے کئی گنا زیادہ خرید چکے ہیں۔سب سے زیادہ ویکسین کے حصول کے نصف سے زیادہ آرڈر ان ممالک سے آئے ہیں جن کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 14 فیصد بنتی ہے۔ آکسفیم کے ہیلتھ میینجر نے کہا کہ جب تک کو ئی بڑی ڈرامائی تبدیلی نہیں آتی دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو آنے والے سالوں میں کوئی محفوظ اور موثر ویکسین نہیں ملے گی۔ اتحاد نے فارما کمپنیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانیت کے بڑے فائدے کی خاطر دانشورانہ املاک اور ٹیکنالوجی کو عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے ساتھ بانٹیں۔
اپریل میں ، ڈبلیو ایچ او ، یورپی کمیشن اور فرانس نے ، کوووکس نامی ایک تنظیم قائم کی جس نے سیاسی و صنعتی رہنماؤں اور مخیر حضرات کو اکٹھا کیا تاکہ وہ ویکسین کے منصفانہ اور عالمی سطح پر رسائی کو یقینی بنائیں۔ یہ تنظیم اب تک ، 700 ملین خوراکیں محفوظ کر چکا ہے ۔ اور اس تنظیم کے 92 ممالک رکن بن چکے ہیں۔
عوامی جمہو ریہ چین نے اس صورتحال سے بہت پہلے خبردا رکیاتھا اور اسلئے صدر شی جن پھنگ نے چین کی ویکسن کو عالمی پروڈکٹ قرار دینے کا اعلان کیاتھا۔ کیونکہ چین بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور پر قائم ہے اور اپنے عمل اور اقدامات سے پوری دنیا کے انسانوں کیلئے خدمات سرانجام دے رہاہے ۔ چین وبا پھوٹنے کے آغاز سے ہی مختلف ممالک کو انسداد وبا کا سامان مہیا کرچکاہے اور اپنے کامیاب تجربات اور معلومات برقت عالمی ادارہ صحت اور مختلف ممالک کے ساتھ شئیر کرتارہاہے ۔
چین نے شروع سے ہی ترقی پذیر اورکم ترقی یافتہ ممالک کیلئے ویکسین کی یکساں دستیابی کیلئے آواز اٹھائی ہے اور اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ امید ہے چین کی ان کوششوں کی وجہ سے ویکسین سے متعلق غریب اور امیر کےدرمیان فرق میں کمی آئیگی اور وبا جیسی مشکل کے وقت بھی بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔