مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

2020-12-14 16:26:17
شیئر:

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے جنوب مغرب میں واقع ہوتان پریفکچر لالہ صحرائی کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاحد نگاہ پھیلا ہوا ریت کا سمندر صحرائے تکلا مکان ہوجود ہے۔ ہوتان ایک قدیم نخلستان کی حیثیت سے ہزاروں سے سالوں سے انسانی تہذیب، ثقافت اور روایات کو اپنی بانہوں میں سمیٹے اور اسے صحرا کاری سے بچاتے آئندہ نسلوں کو منتقل کررہا ہے۔ یہ شہر عظیم شاہرہ ریشم سے متصل ہے۔ قدیم زمانے میں بہت سے قافلے یہاں پڑاؤ ڈالتے اور پھر نئی منزلوں کا رخ  اختیار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ شہر چین میں ریشم کی تیاری کا بھی ایک بہت بڑا مرکز تھا جو یہاں سے  دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا تھا۔

ہوتان میں بہت سی تاریخی مساجد اور مزارات موجود ہیں۔ جن کا روایتی و روحانی حسن آج بھی قائم ہے۔ یہاں مساجد کی نہایت محبت سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ہوتان شہر سے 23 کلومیٹر دور لوپو کاؤنٹی  کے جیا ٹاؤن شپ  میں  صحرا اور نخلستان کے سنگم پر امام عاصم رحمتہ علیہ کا مزار موجود ہے۔ یہ مزار تقریباً ایک ہزار سال قدیم ہے۔ امام عاصم رحمتہ علیہ کا شمار خطے میں اسلام کی شمع روشن کرنے والی اولین شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک صوفی بزرگ کی حیثیت سے خطے میں نہایت کی محترم مقام رکھتے ہیں۔  مقامی لوگ مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ  ان کے  مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔  زیادہ تر لوگ یہاں آمد کے لئے جمعرات کے دن کا انتخاب کرتے ہیں۔

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

ہوتان میں اپنے قیام کے دوان ہمیں مختلف کاؤنٹیوں میں موجود مساجد میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ مویو کاؤنٹی  کے دورے کے دوران ہم نماز عصر سے ایک گھنٹہ قبل وہاں کی مرکزی جامعہ مسجد پہنچ گئے ۔ اس دورام مجھے امام مسجد صاحب سے ملاقات اور تفصیلی بات چیت کاموقع دستیاب آگیا۔ نورین صاحبہ اس دوران  ہمیشہ کی طرح میرے ساتھ موجود رہیں اور  روانی کے ساتھ وہ میرے اور امام صاحب کے مکالمے کو آسان بناتی رہیں۔ مجھے گفتگو میں اس لئے بھی مزہ آیا کہ  جامعہ مسجد کے امام ایک نہایت شائشتہ لہجے کے حامل پڑھے لکھے نوجوان تھے ۔ وہ سعودی عرب ، ملائیشیا اور دیگر اسلامی ممالک کے دورے بھی کر چکے تھے اور دینی و عصری علوم سے آشنا تھے۔ پاکستان کے ذکر پر انہوں نے تمام چینیوں کی طرح بہت والہانہ پن کا اظہار کیا۔

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

میں نے کہا کہ مشکل سوال پر ناراض تو نہیں ہوں گے، مسکراتے ہوئے فرمانے لگے آپ ہمارے مہمان ہیں حکم کریں ۔ میں نے کہا یہاں اتنی کم مساجد کیوں ہیں؟ یہ سوال میں نے محض کم علمی کی وجہ سے  کیا تھا اور شاید گفتگو کو شروع کرنے کے لئے  مجھے مناسب لگا لیکن جواب نے مجھے حیران کردیا۔ امام صاحب نے بتایا کہ  سنکیانگ میں تقریباً24000 ہزار مساجد موجود ہیں۔   اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر 530 مسلمانوں کے لئے ایک مسجد  دستیاب ہے اور یہ تعداد کئی مسلمان ممالک سے زیادہ ہے۔

میں نے امام صاحب سے پوچھا یہاں بچے بنیادی دینی تعلیم  کیسے حاصل کرتے ہیں اور حفظ قران وغیرہ کس طرح کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں دینی تعلیم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔ بچے بنیادی دینی تعلیم یقیناً اپنے گھروں میں ہی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں مسجدوں کے ساتھ لائیبریر یاں اور کمیونٹی سینٹررہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ مساجد کی سہولیات کے علاوہ یہاں سنکیانگ میں 103 اسلامک ایسوسی ایشنز موجود ہیں، 10 بڑے اسلامی تعلیمی ادارے ہیں۔ جو بنیادی اسلامی تعلیمات سے لے کر  اعلیٰ تعلیم تک کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ چائنا  اسلامک ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ،  وی چیٹ، ویبو اور دو ین  جیسی موبائل فون ایپ کی مدد سے اسلامی تعلیمات سیکھی جا سکتی ہیں۔

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

میں نے امام صاحب سے پوچھا مسجدوں کے معاملات کون چلاتا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ہر مسجد کی انتظامی کمیٹی کا انتخاب جمہوری انداز میں کیا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں مقامی نمازی، علمادین اور مقامی مسلمان شامل ہوتے ہیں او روہ مل جل کر مسجد سے متعلق تمام امور کو انجام دیتے ہیں۔ مساجد کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کے لئے مقامی ، صوبائی اور مرکزی حکومتیں گاہے بگاہے فنڈز فراہم کرتی رہتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم چیز انہوں نے بتائی وہ یہ تھے کہ وباکی وجہ سے دنیا بھر میں مساجد کےمعمولات متاثر ہوئے اور نمازوں کے اجتماعات منعقد نہیں  ہوسکے لیکن ہوتان کی مساجد میں کورونا کے حوالے سے ماسک، سماجی فاصلے کا اہتمام، سینی ٹائزر کا استعمال اور ابتدائی دنوں میں گھر سے وضو کرنے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اور نمازیں معمول کے مطابق ادا کی جاتی رہیں۔ نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں مساجد کے صحن میں نماز کا اہتمام کیا جاتا رہا۔

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

امام صاحب نے بتایا کہ سال 2016 میں وہ  حج کے لئے بھی تشریف لے گئے تھے۔ چینی مسلمانوں کے لئے حج کے انتظامات  کی نگرانی اسلامک ایسوسی ایشن آف چائنا کرتی ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک  افطار اور نماز تروایح کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں میں ایک اہم بات عرض کرتا چلوں کہ نان ہوتان کے رہائشیوں کے دستر خوان پر  زندگی  بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری طرح یہاں گرم نان کھانے کا رواج کم ہے۔ آپ کو ہر گھر میں قیمے والے، تلوں والے ، زعفران والے اور زیرے والے نان ضرور ملیں گے جنہیں یہ قہوے ، دہی یا چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔ لہذا مساجد میں افطار کے دستر خوان پر نان ، چائے، خشک میوہ جات اور پھل ضرور رکھے جاتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ مشروبات میں تربوز، مسمی اور  انار شامل ہیں۔ لہذا افطار دستر خوان پر یہ مشروبات خصوصی طور پر موجود ہوتے ہیں۔مساجد میں افطار کے لئے آنے والوں کی تواضع کے لئے سجائے گئے دستر خوان انتظامیہ کی جانب سے سجائے جاتے ہیں۔

مذہبی رواداری کا عملی نمونہ

امام صاحب  سے میرا اگلا سوال آپ کو شاہد عجیب لگے لیکن میں اس حوالے سے بھی جاننا چاہتا تھا کہ ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ خوش پوش، خوش شکل  اور خوش گفتار امام صاحب نے بتایا کہ انہیں حکومت کی طرف سے وظیفہ اور سہولیات ملتی ہیں لیکن وہ اپنے والد محترم کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بھی چلاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اچھی آمد ن حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ ساری گفتگو ہم نے  تکلفات سے بےپروا ہو کر نہایت دوستانہ ماحول میں مسجد کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر کھڑے کھڑے کی۔ امام صاحب نہایت خندہ پیشانی سے جواب بھی دیتے رہے اور مسکراتے بھی رہے۔ اس کے بعد مسجد کے قریب موجود کھاد کے ایک ڈیلر صاحب تشریف لائے اور فرمانے   لگے مہمانوں کو میرے گھر لے چلیں ابھی نماز میں وقت ہے انہیں چائے پیش کرتے ہیں۔ سخت سردی میں چائے کی پیش کش سے انکار نہیں ہوسکا اور ہم ان کے گھر کی جانب چلنے لگے   جو مسجد کے عقبی دروازے کے سامنے واقع تھا  ۔

ہوتان بہت سی قومیتوں کا گھر  ہے۔ یہاں یہ تمام لوگ ایک چین کے شہری کی حیثیت سے نہایت محبت اور بھائی چارے سے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد  اور نطریات کا احترام ان کے خمیر میں رچابسا ہوا ہے۔