موسمیاتی تبدیلیوں کے امور سے نمٹنے میں آسٹریلیا کی لاپروائی ۔ سی آر آئی کا تبصرہ

2020-12-15 20:08:44
شیئر:

حالیہ عرصے میں  آسٹریلیا جنگلات میں لگنے والی  آگ سمیت ماحول سے متعلقہ مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس حوالے سے ہنگامی صورتِ حال سے دوچار ہے۔شدید موسم کا بار بار رونما ہونا نا صرف گلوبل وارمنگ کا ایک نتیجہ ہے بلکہ یہ آسٹریلوی فیصلہ سازوں کی سیاسی کوتاہ اندیشی سے ہونے والے بڑے منفی اثرات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اور اسی لیے یہ بات تعجب انگیز نہیں کہ آسٹریلوی وزیر اعظم  سکوٹ موریسن کو تیرہ دسمبر  کو منعقدہ موسمیاتی ایمبیشن سمٹ میں تقریر کرنے کے لئے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ گارجین کے مطابق ، اس سمٹ میں  صرف ان قومی رہنماؤں کو تقریر کا موقع ملتا ہے  ہیں جو اگلے دس سالوں میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے ، صفر اخراج کا اعلان کرنے ، ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے ، یا "ایمبیشس " منصوبے اور پالیسیاں مرتب کرنے کے اہداف طے کرتے ہیں. آسٹریلیا  ، واضح طور پر ان میں شامل نہیں ہے۔آسٹریلیا کا موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر ہمیشہ منفی رویہ رہا ہے۔ یہ امریکہ کے علاوہ وہ واحد صنعتی ملک ہے  جس نے "کیوٹو پروٹوکول" پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بعد میں ، اگرچہ آسٹریلیا نے "پیرس معاہدے" پر دستخط کیےلیکن  جیسے ہی امریکہ نے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا ، آسٹریلیا بھی بتدریج "پیرس معاہدے" سے دور ہو گیا۔ ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے ، آسٹریلیا کی آب و ہوا کی تبدیلی کے معاملے پر اس قدر لاپروائی  بے حدغیر معقول ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنا پوری انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری ہے ، اور یہ آسٹریلیائی عوام کے بنیادی مفادات کے مطابق بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ آسٹریلوی حکومت آسٹریلیائی عوام کے مفادات کو نظرانداز کر رہی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ  اصل میں وہ مفاد پرست گروہوں کی ترجمان ہے۔