مشرقی تہذیب اور روایات کے مختلف رنگ ہمارے ہاں دستر خوان پر بھی نظر آتے ہیں۔ مہمان نوازی اخلاقیات کاایک نمایاں باب ہے جس کو تما م مذاہب اور معاشروں میں اہم مقام حاصل ہے۔ مذہب اسلام میں بطورِ خاص مہمان نوازی کے آداب تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں؛ حتیٰ کہ مہمان نوازی کے عمل کو ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ایک حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے"جوشخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے۔" (مسلم)
چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے ہوتان میں مجھے بہت سے گھروں میں سجے دسترخوانوں پر مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش حصہ بن چکا ہے۔ مویو کاؤنٹی کے امام صاحب کے ساتھ گفتگو کے دوران احمد رضا صاحب جو کہ کھاد کے ایک بڑے ڈیلر ہیں تشریف لائے اور کہا کہ مہمانوں کو ہمارے گھر لے چلیں ابھی نماز میں خاصا وقت ہے۔ میں اس پر حیران ہوا لیکن امام صاحب نے کہا چلیں آپ کو قہوہ پیش کرتے ہیں۔ سردی کافی زیادہ تھی لہذا انکار نہ ہو سکا، دوسرا میں انفراسٹرکچر سے زیادہ عام لوگوں کے طرز زندگی کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا لہذا میری اس خواہش کی تشفی بھی ہورہی تھی۔
ہم احمد رضا صاحب کے گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم گروپ میں تقریباً دس لوگ تھے انہوں نے نہایت محبت کے ساتھ قہوہ پیش کیا۔ قہوے کی خوشبو لاجواب تھی نہ صرف سردی کے احساس میں کمی ہوئی بلکہ فرحت کا احساس بھی ہوا۔ ہمارے سامنے موجود سینڑ ٹیبل پر کاجو، بادام ،اخروٹ، کھجور، عناب، خشک خوبانی، کش مش، زیتون اور انجیر سمیت بہت سے میوہ جات موجود تھے۔ ان میں سے شاید ایک دو کے تو مجھے نام بھی نہیں آتے تھے۔ تازہ پھلوں میں دو تین طرح کے سیب، کیلے، دو تین اقسام کے انگور، گرما، تربوز اور انار موجود تھے۔ اس کے علاوہ ہوتان کے روائتی نان اور ہمارا ہاں ملنے والی نمکو میں موجود سویوں کی طرح کی نمکین سویاں ایک ڈھیر کی صورت موجود تھیں۔
میں اس دوران قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے احمد رضا صاحب سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھتارہا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مویو کاؤنٹی میں کھاد کے ایک بڑے برینڈ کے ڈیلر ہیں اور ان کی ماہانہ آمدنی بہت اچھی ہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں۔ اس گھر میں ہم میاں بیوی رہتے ہیں۔ مسجد کے سامنے میری دکان ہے۔ جیسے ہی کوئی غیرملکی وفد یکھتا ہوں۔ دل و جان سے میزبانی کا شرف حاصل کرنے کے لئے پہنچ جاتا ہوں۔ اکثر وقت کی کمی کی وجہ سے اس اعزاز سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ لیکن آج اپ لوگ ایک ایسے وقت آئے ہیں جب آپ کے پاس فراغت موجود ہے تو مجھے آپ کی میزبانی کا موقع میسر آگیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔
اس دوران ڈرائنگ روم کے سامنے واقع کچن سے احمد صاحب کی بیوی قہوے کی گرما گرم کیتلی پھر سے لے آئیں اور ہمیں قہوہ دینے لگیں۔ قہوہ پیش کرنے کے بعد انہوں نے مادرانہ شفقت سے سب کو حکم دیا ہے کہ قہوے کے ساتھ نان ضرور کھائیں یہ میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں۔ امام صاحب نے اس مشکل حکم کی بجا آوری میں ہماری مدد کی۔ یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ایک نان ہمارے چار نانوں کے برابر تھا۔ خیر جناب میں نے نان چکھا تو یہ انتہائی خوش ذائقہ تھا۔ اس میں زیرہ، نمک، مرچ اور چند مزید مصالحے شامل تھے۔ یہ بہت ہی زیادہ خستہ تھا، قہوے کا لطف نان نے دوبالا کر دیا۔
احمد صاحب نے بتایا کہ حکومتی پالیسیویں کی وجہ سے سنکیانگ غربت سے نجات حاصل کرچکا ہے۔ غذائی خود کفالت کی وجہ سے خشک میوہ جات اور گوشت اب لوگوں کی روزمرہ خوراک کا حصہ ہے۔ سنکیانگ میں بہت سے گھروں میں ہمیں مسلمان بہن بھائیوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ دلچسپی کی ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ یہاں نہ صرف کھانوں کے ذائقے بلکہ بعض کھانوں کے نام بھی ہمارے کھانوں سے ملتے جلتے تھے۔
مثلاً نان، کباب، پلاؤ، سموسہ، پیاز، بادام اور اخروٹ وغیرہ۔
سنکیانگ میں غربت کے خاتمے کی حکومتی کوششوں کے دوران پیکجنگ کی صنعت بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے۔ یہاں بننے والے بہت سے خوش ذائقہ کھانے ملک کے دیگر حصوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف یہاں کی ثقافت کو بہت زیادہ فروغ ملا ہے بلکہ تیار کھانوں کی صنعت بھی ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بن چکی ہے۔ سنکیانگ کے دستر خوانوں پر صدیوں سے موجود تہذیب کے رنگ آج بھی آنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل و دماغ کو تسکین بخشتے ہیں۔